نفل روزہ ٹوٹ جائے تو دن میں کھانے پینے کا حکم

نفل روزہ ٹوٹ جائے تو دن کے باقی حصے میں کھا پی سکتے ہیں ؟

دارالافتاء اھلسنت(دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  نفل روزے میں روزہ دار ہونا  یاد ہو اور کلی کرتے ہوئے غلطی سے حلق میں پانی چلا جائے ،تو روزے کا کیا حکم ہوگا؟اگر روزہ ٹوٹ جائے گا، تو کیا اس صورت  میں  رمضان کے روزے کی طرح، نفل روزے میں بھی   باقی دن روزے دار کی طرح رہنا واجب ہوگایا روزہ ٹوٹنے کے بعد کھانے پینے کی اجازت ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

روزہ دار ہونا یاد ہو اور  کلی کرتے ہوئے  غلطی سے پانی حلق سے نیچے اتر جائے، تو اس صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ، اور اس روزے  کی قضا لازم ہوگی۔روزہ ٹوٹ جانے  کے بعد  نفل روزہ رکھنے والے پر بقیہ دن روزے دار کی طرح رہنا واجب نہیں  ہوگا،بلکہ اُسے کھانے پینے کی شرعاً اجازت  ہوگی،اس لیے کہ    کھانے پینے سے رُکے رہنا، اور روزے داروں کی مشابہت اختیار کرنے والا معاملہ    صرف رمضان کے ادا  روزوں کے ساتھ خاص ہے،  کیونکہ رمضان کے روزے خود ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف سے فرض ہیں،اس کی حرمت اور تعظیم کے تقاضے کے پیش نظر  اگر رمضان کا ادا روزہ  فاسد ہوجائے، تو روزے دار   پر بقیہ دن اِمساک یعنی کھانے پینے سے رُک کرروزے داروں کی مشابہت اختیار کرنا واجب ہوتا ہے۔باقی رمضان کے ادا روزوں کے علاوہ جیسے منت ،کفارے،رمضان کے قضا روزے اور  نفل روزوں کا معاملہ ایسا نہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی طرف سے فرض کردہ نہیں،لہذا اگر  یہ روزے  فاسد ہوجائیں، تو روزے دار پر بقیہ دن  کھانے پینے سے رُک کر روزے داروں کی مشابہت  اختیار کرنا  شرعاً لازم و ضروری   نہیں ۔

روزہ یاد ہو اور کلی کرتے ہوئے  پانی حلق سےنیچے اتر جائے ،تو روزہ ٹوٹ جاتا ہےاور روزے کی قضا لازم ہوتی ہے، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے :

واذاتمضمض الصائم فسبقہ الماء فدخل حلقہ فان لم یکن ذاکرالصومہ فصومہ تام وان کان ذاکر الصومہ فعلیہ القضاء

ترجمہ:جب روزے دارنے کلی کی اورپانی آگے بڑھ کر حلق میں داخل ہوگیا، تو اگر اسے اپناروزہ یادنہ ہو،توروزہ صحیح ہے اوراگرروزہ یادہے، تو اس پرقضالازم ہے ۔ (مبسوط سرخسی، کتاب الصوم ، جلد3،صفحہ71،مطبوعہ کوئٹہ )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وان تمضمض أو استنشق فدخل الماء جوفہ ان کان ذاکرالصومہ فسد صومہ وعلیہ القضاء وان لم یکن ذاکرالایفسد صومہ کذافی الخلاصۃ وعلیہ الاعتماد

ترجمہ:اگر کسی شخص نے کلی کی یاناک میں پانی چڑھایااور پانی اس کے جوف (یعنی حلق یا  دماغ)میں داخل ہوگیا تواگر روزہ دار ہونایاد ہے ،توروزہ جاتا رہااوراس پر قضا ہے اوراگر روزہ دار ہونا یاد نہیں،تو نہ ٹوٹے گا ،ایسے ہی خلاصہ میں ہے اوراسی پر اعتماد ہے ۔(الفتاوی الھندیۃ ، جلد1 ، كتاب الصوم،صفحہ 202 ، دارالکتب العلمیہ،بیروت )

صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہار شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ کلی کر رہا تھا، بلا قصد پانی حلق سے اتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دماغ کو چڑھ گیا، روزہ جاتا رہا، مگر جب کہ روزہ ہونا بھول گیا ہو تو نہ ٹوٹے گا، اگرچہ قصداً ہو۔‘‘ (بھار شریعت ، جلد1 ، حصہ 5، صفحہ 987 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

رمضان کا ادا روزہ ٹوٹ جائے تو بقیہ دن امساک واجب ہے،اس کے علاوہ منت،قضائے رمضان اور نفل روزوں  میں سے کسی  روزے میں امساک واجب نہیں،جیسا کہ الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں ہے:

من فسد صومه في أداء رمضان وجب عليه الإمساك بقية اليوم تعظيماً لحرمة الشهر ۔۔۔أما من فسد صومه في غير أداء رمضان،كالصيام المنذور، سواء أكان معيناً أم لا،وكصوم الكفارات، وقضاء رمضان، وصوم التطوع، فإنه لا يجب عليه الإمساك بقية اليوم

ترجمہ:جس کے رمضان کاادا روزہ فاسد ہوجائے، تو اس پر رمضان کے مہینے کی حرمت و تعظیم کی وجہ سے  بقیہ دن امساک واجب ہوگا ۔۔۔ بہرحال جس  کا  رمضان کے ادا روزے کے علاوہ  کوئی روزہ فاسد ہوجائے، جیسے  منت کا روزہ چاہے معین ہو یا  غیرمعین ،کفارے کا روزہ،رمضان کا قضا روزہ اور نفل روزہ تو اس پر بقیہ دن کھانے پینے سے رُکے رہنا واجب نہیں ہوگا۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ ،جلد1، صفحہ 519،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

رمضان کے ادا روزے میں امساک کا واجب ہونا،رمضان کے مہینے اور وقت کی حرمت کی وجہ سے ہےجو کہ کسی اور دن میں نہیں پائی جاتی،لہذا اُس میں امساک بھی واجب نہیں،چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:

أن زمان رمضان وقت شريف فيجب تعظيم هذا الوقت بالقدر الممكن،فإذا عجز عن تعظيمه بتحقيق الصوم فيه يجب تعظيمه بالتشبه بالصائمين قضاء لحقه بالقدر الممكن۔۔۔ بخلاف مسألة النذر لأن الوقت لا يستحق التعظيم حتى يجب قضاء حقه بإمساك بقية اليوم

ترجمہ:بیشک رمضان کا زمانہ ایک  بلند رتبہ وقت ہے،تو حتی الامکان  اس وقت کی تعظیم واجب ہے۔جو اس وقت میں  روزہ رکھ کر اس کی تعظیم  کرنے سے عاجز ہوجائے، تو اس پر(کھانے پینے سے رُک کر) روزے داروں سے مشابہت کرتے ہوئے حتی الامکان اس کے حق کو پورا کرنے کے لیےاس کی تعظیم کرنا واجب ہوگا، برخلاف منت کے مسئلے میں کہ اس کا وقت تعظیم کا مستحق نہیں،یہاں تک کہ  اس کے حق کو پورا کرنے کے لیے بقیہ دن کھانے پینے سے رُکنا واجب ہو۔ (بدائع الصنائع،جلد2،صفحہ103،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-336

تاریخ اجراء: 13شوال المکرم1445ھ/22اپریل2024ء