نیند میں کھانے پینے سے روزہ کیوں ٹوٹتا ہے؟

 

نیند میں کھانے پینے سے روزہ کیوں ٹوٹتا ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0326

تاریخ اجراء: 15 رمضان المبارک1445ھ/26 مارچ2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کتب فقہ میں مذکور ہے کہ  نیند میں کچھ کھانے  پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،جبکہ روزہ یاد نہ ہونے کی صورت میں کھانے پینے سے روزہ  نہیں ٹوٹتا،یہ فرق کیوں ہے ؟حالانکہ دونوں صورتوں میں انجانے میں کھانا پینا پایا جاتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قیاس کا تقاضا اور اصل تو یہی ہے کہ جب بھی  روزے کی حالت میں کھانا پینا  پایا جائے ،تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے، لیکن حدیث پاک میں بھول کر کھانے پینے کی صورت میں خلاف قیاس روزہ  نہ ٹوٹنے کا حکم  دیا۔فقہائے کرام نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ بھولنا ایک ایسا عذر ہے جو کہ بنی نوع آدم کو کثرت سے لاحق ہوتا ہے،چونکہ اس سے بچنا مشکل اور اس حالت میں کھانے پینے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم دینے میں حرج تھا،اس وجہ سے حدیث پاک میں بطور تخفیف  روزہ نہ ٹوٹنے کا حکم ارشاد  ہوا۔

   نیند میں کھانے پینے کی صورت میں یہ حکم اس وجہ سے نہیں کہ شریعت مطہرہ نے جس عذر  پر تخفیف کا دار  و مدار رکھا ،وہ ایسا عذر ہے جو کہ انسانوں کو کثرت سے پیش آتا ہواور اس سے بچنا مشکل ہو،جبکہ نیند کی حالت میں کھانا پینا  شاذ و نادر ہی ہوتا ہے،لہٰذا یہ عذر نسیان کے برابر نہ ہونے کی وجہ سے تخفیف کا سبب نہیں۔

   بھول کر کھانے پینے کی صورت میں روزہ نہ ٹوٹنے کا حکم خلاف قیاس   اور استحسان بالاثرپر مبنی ہے اور  اصول یہ ہے کہ خلاف قیاس حکم اپنے مورد یعنی جس مسئلہ کے  بارے میں وہ حکم وارد ہے، اس تک محدود ہوتا ہے ،اس پر مزید کسی مسئلہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا،لہٰذا نیند والے مسئلے کو  نسیان والے حکم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔

   بھول کر کھانے پینے کی صورت میں روزہ نہ ٹوٹنے کے حوالے سےصحیح بخاری میں موجود ہے:” قال النبی صلى اللہ عليه وسلم: من أكل ناسيا، وهو صائم، فليتم صومه، فإنما أطعمه اللہ وسقاه“سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے،تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے،بے شک اسے  اللہ نے کھلا یا پلایا ہے۔(صحیح البخاری،ج08،ص136،رقم6669،دار طوق النجاۃ)

   اصل حکم تو یہی ہے کہ کھانے پینے اور جماع سے بہر حال روزہ ٹوٹ جائے، لیکن حدیث پاک کی وجہ سے نسیان کی صورت میں روزہ نہ ٹوٹنے کا حکم  ہے۔ہدایہ میں ہے:”(وإذا أكل الصائم أو شرب أو جامع نهارا ناسيا لم يفطر) والقياس أن يفطر، لوجود ما يضاد الصوم ، وجه الاستحسان قوله  عليه الصلاة والسلام  للذي أكل وشرب ناسيا تم على صومك فإنما أطعمك اللہ وسقاك“ روزے دار نے دن میں بھولے سے کھایا،پیا یا بیوی سے صحبت کرلی،تو روزہ نہیں ٹوٹے گا،قیاس کا تقاضایہ ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے،کہ روزے کی ضد یعنی کھانا پینا اور صحبت کرنا پایا گیا،جبکہ استحساناً روزہ نہ ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ بھول کر کھانے پینے والے کے لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اپنا روزہ مکمل کرو بے شک اللہ نےتمہیں کھلایا پلایا ہے۔(الھدایہ،ج01،ص122، مطبوعہ لاھور )

   سونے کی حالت میں کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جانے اور اس عذر کے  نسیان کے برابر نہ ہونے کےمتعلق  محیط اور قاضی خان میں بالفاظ متقاربہ ہے :”النائم إذا شرب فسد صومه وليس هو كالناسيی لأن النائم أو ذاهب العقل إذا ذبح لم تؤكل ذبيحته وتؤكل ذبيحة من نسی التسمية“سونے والا جب پیے،تو اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا ،اس کا حکم بھول کر پینے والے کی طرح نہیں ہوگا،کیونکہ سونے والا اور پاگل جب  ذبح کریں، تو ان کا ذبیحہ نہیں کھایا  جائے گا،جبکہ جو شخص بسم اللہ پڑھنا بھول جائے،اس کا ذبیحہ کھانا حلال ہے۔(فتاوی قاضی خان،ج01، ص188،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)(المحیط البرھانی،ج02،ص385،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   مذکورہ تعلیل  کی تشریح شامی میں یوں مذکور ہے:” قال الرحمتی ومعناه: أن النسيان اعتبر عذرا فی ترك التسمية بخلاف النوم والجنون فكذا يعتبر عذرا فی تناول المفطر؛ لأن النسيان غير نادر الوقوع، وأما الذبح وتناول المفطر فی حال النوم والجنون فنادر فلم يلحق بالنسيان“رحمتی نے فرمایا:مذکورہ تعلیل کا مطلب یہ ہے کہ بسم اللہ نہ پڑھنے کے معاملے میں بھولنے کو عذر قرار دیا گیا، برخلاف نیند اور پاگل پن کے،اسی طرح بھول کو روزے کی حالت میں کھانے پینے اور جماع کرنے کے معاملہ میں بھی عذر قرار دیا گیا،کیونکہ بھولنے کا وقوع شاذ و نادر نہیں ہوتا،جبکہ نیند اور پاگل پن کی حالت میں جانور ذبح کرنااور کھانا پینا اور جماع کرنا  شاذ و نادر ہی ہوتا ہے،لہٰذا یہ دونوں اعذار نسیان کے ساتھ  لاحق نہیں ہوئے۔(رد المحتار،ج02،ص401،دارالفکر ، بیروت)

   جس طرح مُکرَہ یعنی جسے مجبور کرکے کھلایا پلایا گیا ہو، اور غلطی سے کھانے پینے والے  کا عذر ، عذرِ نسیان کے برابر نہیں۔حسامی میں ہے:”لا یستقیم تعدیۃ الحکم من الناسی فی الفطر الی المکرہ والخاطی لان عذر ھما دون عذرہ فکان تعدیتہ الی ما لیس بنظیرہ“ بھول کر کھانے پینے والے کا حکم مُکْرَہ یعنی جسے مجبور کرکے کھلایا  پلایاگیا،اور غلطی سے کھانے والے کی طرف متعدی کرنا درست نہیں کہ ان دونوں کے اعذار  عذر نسیان سے کم ہیں ،لہٰذا یہ ایسی فرع کی طرف حکم کو متعدی کرنا ہوگا جو کہ اصل کی نظیر نہیں۔(الحسامی مع النامی ،ص214،مطبوعہ کراچی)

   بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہ ٹوٹنے کا حکم  خلاف قیاس، استحسان بالاثر  پرمبنی ہے،اور خلاف  قیاس حکم پر کسی مسئلہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔غمز عيون البصائر میں ہے:”إن حكم الناسي ثبت على خلاف القياس بالأثر فلا يقاس عليه غيره“بھول کر کھانے پینے والے کا حکم  حدیث کی وجہ سے خلاف قیاس ثابت ہے،  لہٰذا اس پر کسی اور مسئلہ کو قیاس نہیں کیا جائے گا۔(غمز عیون البصائر،ج02،ص76،دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   استحسان بالاثر کے آگے متعدی نہ ہونے کے متعلق حسامی مع النامی میں ہے :”(ثم المستحسن بالقیاس الخفی یصح تعدیتہ بخلاف المستحسن بالاثر او الاجماع او الضرورۃ)فان الحکم الثابت من کل واحد من تلک الاقسام الثلثۃ فی مقابلہ النص الجلی لا یتعدی الی غیرہ لانہ غیر معلول بعلۃ حتی یصح التعدیۃ باشتراک العلۃ بل ھو معدول بہ عن القیاس ثابت بالنص والاجماع والضرورۃ“استحسان بالقیاس الخفی کا متعدی ہونا درست ہے جبکہ استحسان بالاثر،استحسان بالاجماع یا استحسان بالضرورۃ کا متعدی ہونا درست نہیں، کیونکہ ان تینوں میں سے ہر ایک میں ثابت ہونے والا حکم قیاس جلی کے مقابلے میں ہوتا  ہے جو کہ متعدی نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ کسی علت سے معلول نہیں ہوتا  کہ علت کے مشترک ہونے کی وجہ سے حکم کا متعدی ہونا درست ہوجائے ،بلکہ یہ خلاف قیاس نص،اجماع   اور ضرورت کی وجہ سے ثابت ہوتا  ہے۔(الحسامی مع النامی،ص229،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم