پیاس لگنے پر روزہ چھوڑنا اور روزوں کا فدیہ دینا

میڈیسن کھانے سے شدید پیاس لگتی ہو تو روزوں کا فدیہ دینا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-474

تاریخ اجراء:04 محرم الحرام6144ھ/11 جولائی2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں17سال سے ذہنی مریضہ ہوں اور رمضان کے روزے نہیں رکھتی، کیونکہ میں جو ادویات استعمال کرتی ہوں، اُن کے ساتھ پانی بہت پینا پڑتا ہے، میں ایک منٹ بھی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی چاہے سردی ہو یا گرمی،اُن ادویات کے علاو ہ کوئی حل بھی نہیں ہے، تو میں اپنے روزوں کا فدیہ دیتی ہوں،کیا یہ جائز صورت ہے؟ اگر نہیں تو برائے کرم شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر  واقعی آپ پانی پیے بغیر نہیں  رہ سکتیں،اور گولیاں کھانے سے پانی کی پیاس اس شدت سے لگتی ہے کہ  اگر آپ پانی نہیں پیتی،توپیاس کی شدت اتنی  بڑھ جاتی ہےکہ پانی    نہ    پینے  کے سبب جان جانے  یا   شدید قسم کا  نقصان،یا   نا قابل برداشت  تکلیف   پہنچنے کاصحیح اندیشہ ہوتا ہے،توایسی صورت میں فی الحال آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی،مگر اس  صورت میں آپ کو روزے کی قضا   ہی کرنا  ہوگی،فدیہ دے کرآپ اُن روزوں کی ادائیگی سے برئی الذمہ نہیں ہوسکتیں،لہذا آپ اس بیماری کے جانےکا انتظار کریں،اگر  بیماری ختم  ہوجائے یا  کم ہوجائے   جس کی وجہ سے اُن ادویات کے بغیر بھی گزارہ  ہوسکتا ہو،تو اب اُن تمام چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا کریں،ورنہ اگر اسی حالت میں موت کا وقت قریب  آجائے ،تو اب فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کردیں،الغرض  فی الحال آپ کے لیے فدیہ کا حکم نہیں،کیونکہ روزے کے بدلے  فدیہ ادا کرنے کا حکم شیخِ فانی  کے لیے  ہوتا ہے، مریض  کے لیے نہیں۔

   شیخِ فانی  سے مراد  وہ شخص کہ  جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہو چکا ہو کہ اصلاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو،نہ سردی میں نہ گرمی میں،نہ لگاتار،نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں روزہ رکھنے کی طاقت کی امید ہو،تو ایسا بوڑھا  شخص روزے کے بدلے  فدیہ ادا کرسکتا ہے۔

   واضح رہے کہ   پانی کے بغیر نہ رہ  سکنے اور پیا س کی شدت کے سبب  شدید قسم کا نقصان اور تکلیف پہنچنے  کا محض وہم   و گمان کافی نہیں،بلکہ اس کا ظن غالب ہونا  ضروری ہے اور ظن غالب تین طرح سے حاصل ہوتا ہے ،یا تو  اس کی کوئی واضح علامت  موجود  ہو، یا  سابقہ ذاتی تجربہ ہو، یا کسی ایسے   ماہر طبیب کے بتانے سے معلوم ہو جس پر پورے طور پر اعتماد جمتا ہو۔

   پیاس کی وجہ سے روزہ چھوڑنےکےمتعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:’’الأعذار التي تبيح الإفطار۔۔۔ منھا العطش والجوع كذلك إذا خيف منهما الهلاك أو نقصان العقل‘‘ترجمہ:وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا جائز ہے،ان میں سے بھوک اور پیاس بھی ہے کہ جب بھوک اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہونے یا عقل میں نقصان کا خوف ہو۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،کتاب الصوم،صفحہ206،207،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’اگر واقعی(کوئی) کسی ایسے مرض میں مبتلاہے، جسے روزہ سے ضرر پہنچتا ہے،تو تاحصولِ صحت اُسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے،اُس کے بدلے اگر مسکین کو کھا ناد ے،تو مستحب ہے، ثواب ہے، جبکہ اُسے روزہ کا بدلہ نہ سمجھے اور سچے دل سے نیت رکھے کہ جب صحت پائے گا، جتنے روزے قضا ہُوئے ہیں ادا کرے گا۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ520،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  بہار شریعت میں لکھتے ہیں :’’ مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونےیا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو ، تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔۔۔ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے،محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں:(1)اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا(2)اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا(3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔“(بھار شریعت، جلد1، حصہ5،صفحہ1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فدیہ کا حکم مریض  کے لیے نہیں ،مریض کوبیماری جانے کا انتظار کرنا  ضروری ہے،جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے، انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں،اگر قبلِ شفا موت آجائے،تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں،غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں،نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو،جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کردیا کہ روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا، تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں، ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ547، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم