
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0511
تاریخ اجراء:08 شعبان المعظم 1446 ھ / 07 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک اسلامی بہن کے رمضان کے کچھ روزے قضا ہیں جنہیں وہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے سوالات یہ ہیں:
(1)قضا روزے کی نیت کب تک کی جا سکتی ہے؟
(2)اگر کسی کے گزشتہ رمضان کے کچھ روزے باقی ہوں اور دوسرا رمضان شروع ہو جائے، تو کیا وہ پہلے قضا روزے مکمل کرے یا موجودہ رمضان کے روزے رکھے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)قضا روزہ رکھنے کے لیے رات میں ہی یا پھر عین طلوعِ فجر کے وقت نیت کرنا ضروری ہے، اس کے بعد کی جانے والی نیت سے یہ روزہ ادا نہیں ہوگا۔
(2)اگر کسی کے رمضان کے قضا روزے باقی ہوں اور اگلا رمضان آ جائے تو اس صورت میں آنے والے رمضان کے روزے پہلے رکھنا ضروری ہیں، قضا روزوں کی نیت کرنا اس وقت ناجائزو حرام ہے، اگر کوئی شخص قضا روزوں کی نیت کرتا ہے تو بھی اس کا روزہ موجودہ رمضان کا ہی شمار ہوگا، اور اس نیت کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا۔ پچھلے رمضان کے قضا روزے اس رمضان کے بعد ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔
دلائل درج ذیل ہیں:
قضا روزے کی نیت کے وقت سے متعلق تحفۃ الفقہاء،کنز اور اس کی شرح تبیین میں ہے، و النص للتبیین: ’’(و ما بقي لم يجز إلا بنية معينة مبيتة) أي ما عدا ما ذكرنا من الأنواع لم يجز إلا بنية معينة مبيتة من الليل و هي قضاء رمضان و الكفارات و النذر المطلق إذ ليس لها وقت متعين لها فلم يتعين لها إلا بنية من الليل أو بنية مقارنة لطلوع الفجر فلم تصح بنية من النهار‘‘ ترجمہ: اور بقیہ روزے رات میں ان کی تعیین کے ساتھ نیت کیے بغیر ادا نہیں ہوں گے، یعنی ہم نے روزوں کی جو اقسام ذکر کیں ان کے علاوہ بقیہ روزے رات میں ان کی تعیین کے ساتھ نیت کرنے سے ادا ہوں گے، اور وہ بقیہ قضا ئے رمضان، کفارات، نذر مطلق کے روزے ہیں، کیونکہ ان کےلیے کوئی معین وقت نہیں تو یہ رات میں یا فجر طلوع ہونے کے وقت نیت کرنے سے متعین ہوتے ہیں تو دن میں نیت کرنے سے ادا نہیں ہوسکتے۔(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج 1، ص 316، طبع بولاق، قاھرہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’ قضائے رمضان اور نذر غیر معیّن اور نفل کی قضا۔۔۔ ان سب میں عین صبح چمکتے وقت یا رات میں نیّت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو روزہ رکھنا ہے، خاص اس معیّن کی نیّت کرے اور اُن روزوں کی نیّت اگر دن میں کی تو نفل ہوئے۔‘‘ (بھار شریعت، ج 1، حصہ 5، ص 971،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ادا روزوں کو قضا پر مقدم کرنے سے متعلق نہر الفائق، در مختار،مجمع الانھر میں ہے، و النص للآخر: ’’(فان اخرہ) ای القضاء (حتی جاء) رمضان (آخر قدم الاداء) علی القضاء بالاجماع لانہ وقتہ‘‘ ترجمہ: پھر اگر قضا روزوں کو مؤخر کیا حتی کہ دوسرا رمضان آگیا تو بالاجماع ادا روزوں کو مقدم کرے گا کہ یہ اسی کا وقت ہے۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابھر، ج 1، ص 250، دار احیاء التراث العربی)
رد المحتار میں ہے: ’’الظاھر الوجوب لما مر أول الصوم من أنہ لو نوی النفل أو واجبا ً آخر یخشٰی علیہ الکفر، تامل‘‘ ترجمہ: ظاہر وجوب ہے کیونکہ روزے کے بیان کے شروع میں پہلے بیان ہوچکا کہ اگر کوئی (رمضان میں) نفل یا دوسرے کسی واجب روزے کی نیت کرے تو اس پر کفر کا خوف ہے، غور کریں۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 3، ص 465، طبع کوئٹہ)
بلکہ اگر قضا کی نیت کربھی لی تو بھی رواں رمضان کا روزہ ہی ادا ہوگا۔ نور الایضاح و مراقی الفلاح میں ہے: ’’(فان جاء رمضان آخر) و لم یقض الفائت (قدم) الاداء (علی القضاء) شرعاً حتی لونواہ عن القضاء لا یقع الا عن الاداء کما تقدم‘‘ ترجمہ: اگر دوسرا رمضان آگیا اور قضا روزہ نہ رکھا تھا تو شرعاً ادا روزے کو قضا پر مقدم کرے حتی کہ اگر اس نے قضا روزے کی نیت کی تو ادا ہی واقع ہوگا جیسا کہ گزرا۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، ص 259، المکتبۃ العصریۃ)
تبیین الحقائق میں ہے: ’’صام رمضان الثانی لانہ فی وقتہ و ھو لا یقبل غیرہ ثم صام القضاء بعدہ لانہ وقت القضاء‘‘ ترجمہ: دوسرے رمضان کے روزے رکھے کہ یہ اسی کا وقت ہے اور یہ وقت ادا کے سوا کسی اور روزے کی صلاحیت نہیں رکھتا، پھر اس کے بعد قضا روزے رکھے کیونکہ وہ قضا کا وقت ہے۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج 1، ص 336، طبع بولاق، قاھرہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں۔۔۔ اور اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اس رمضان کے روزے رکھ لے، قضا نہ رکھے، بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضا کی نیّت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اُسی رمضان کے روزے ہیں۔‘‘ (بھار شریعت، ج 1، ص 1004، 1005، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم