روزہ دار نے کھانے کا نوالہ نگل لیا، کیا روزہ ٹوٹ گیا؟

 

روزے دار کا نوالہ نگلنا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13217

تاریخ اجراء:25جمادی الثانی1445 ھ/08جنوری 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدنفل  روزے سے تھا ، اُس کے دوست نے اُسے کھانے کی پیشکش کی، ابھی کھانے کا دوسرا نوالہ زید کے منہ میں تھا کہ اُسے یاد آگیا کہ وہ تو روزے سے ہے مگر زید نے وہ نوالہ پھینکنے کے بجائے اُسے نگل لیا، پھر زید نے کچھ نہ کھایا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس صورت میں زید کا وہ روزہ ٹوٹ گیا؟ اگر ٹوٹ گیا تو کیا اُس روزے کی قضا بھی کرنا ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں روزہ یاد آنے کے باوجود منہ میں موجود  نوالے کو نگلنے کی بنا پر زید کا  نفل  روزہ ٹوٹ گیا، اب اُس روزے کی قضا کرنا زید کے ذمے پر لازم ہے۔

   نفل روزہ توڑنے کی صورت میں اُس کی قضا لازم ہونے سے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ ترمذی شریف کی حدیثِ پاک کچھ یوں ہے: ”كنت أنا وحفصة صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبدرتني إليه حفصة، وكانت ابنة أبيها، فقالت: يا رسول الله، إنا كنا صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه، قال اقضيا يوما آخر مكانہ۔“ترجمہ: ”میں اور حفصہ رضی اللہ عنہما روزے سے تھیں ، ہمارے سامنے کھانا آیا تو ہمیں اچھا لگا اور ہم نے وہ  کھانا کھا لیا ، پھر جب  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور وہ اپنے والد کی  طرح نیکی میں جلدی کرتی  ہیں، مجھ پر  سبقت لے گئیں ، اور عرض کی ہم دونوں روزے سے تھیں، ہمارے سامنے کھانا آیا تو ہمیں اچھا لگا ، اور ہم نےکھا لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تم دونوں اس نفل روزے کے بدلے میں ایک دن کے روزے کی قضا کرو۔ “(سنن الترمذي،  ابواب الصیام، ج03، ص103، مطبوعہ مصر)

   بھولے سے کھانے کی صورت میں روزہ یاد آنے کے باوجود روزے دار منہ میں موجود نوالہ نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجانے سے متعلق فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ  میں مذکور ہے:”إذا بقيت لقمة السحور في فيه فطلع الفجر ثم ابتلعها أو أخذ كسرة خبز ليأكلها ، وهو ناس فلما مضغها ذكر أنه صائم فابتلعها مع ذكر الصوم قال بعضهم إن ابتلعها قبل أن يخرجها فعليه الكفارة ، وإن أخرجها ثم أعادها لا كفارة عليه، وهو الصحيح كذا في فتاوى قاضي خان۔“یعنی سحری کرنے والے کے منہ میں سحری کا لقمہ موجود ہو کہ فجر طلوع ہوجائے، پھر وہ اُسے نگل جائے یا روزے دار نے بھولے سے کھانے کے لیے روٹی کا ٹکڑا لیا، پھر جب اس نے چبایا تو اُسے روزے دار ہونا یاد آگیا مگر اس کے باوجود وہ اسے نگل جائے تو بعض فقہائے کرام کے نزدیک اگر  روزے دار نے نوالے کو منہ سے نکالنے سے پہلے ہی نگل لیا  ہو تو اس پر کفارہ لازم ہوگا، اور اگر اس نے نوالے کو منہ سے نکال کر پھر اُسے نگلا ہو تو  اس پر کفارہ لازم نہیں ہوگا، اور یہی بات صحیح ہے  جیسا کہ فتاوی قاضی میں مذکور ہے۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الصوم، ج 01، ص 203، مطبوعہ پشاور)

   نوٹ: واضح رہے کہ فتاوٰی عالمگیری کے مذکورہ بالا  جزئیے  میں روزے کے کفارے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق رمضان کے روزے سے ہے، البتہ نفل روزہ توڑنے پر فقط قضا ہوتی ہے، کفارہ نہیں۔  

   بہارِ شریعت میں ہے: ” بھولے سے کھانا کھا رہا تھا، یاد آتے ہی فوراً لقمہ پھینک دیا یا صبح صادق سے پہلے کھا رہا تھا اور صبح ہوتے ہی اُگل دیا، روزہ نہ گیا اور نگل لیا تو دونوں صورتوں میں جاتا رہا۔ (بہارِ شریعت، ج01، ص983، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم