روزے کی حالت میں دانتوں کی صفائی اور روٹ کنال کروانا

 

روزے کی حالت میں دانتوں کی صفائی اور روٹ کنال کروانا

مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3605

تاریخ اجراء:26شعبان المعظم 1446ھ/25فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں     کہ  رمضان کے مہینے میں  دانت کی  صفائی  اور اس کا  روٹ کنال کروانا درست ہے یا  نہیں ؟ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   علمائے کرام  نے  حالت روزہ میں  ہر اس کام سے منع فرمایاہے جس کے سبب روزہ ٹوٹنے  کا خدشہ ہو  مثلاً  وضو  کرتے وقت غرغرہ  کرنا، ناک میں  پانی چڑھانے میں مبالغہ  کرنا ،   منجن کرنا   وغیرہ کہ ان میں    پانی  وغیرہ کےقطرے اور ذرَّات کا حلق  میں چلے جانے کا  خدشہ ہوتا ہے ۔ لہذا روزے کی حالت میں دانتوں کی صفائی اور ان کا روٹ کنال  نہیں کروانا چاہیےکیونکہ اس دوران دانتوں کا  خون اور  اس میں لگائی جانے  والےانجکشن میں موجود دوائی کا حلق سے نیچے اترنے کاخدشہ ہے ،اگرحلق سے نیچے خون یا دوائی وغیرہ اترگئی اور روزہ ہونا  یاد تھا  تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس لئے  بہتر ہے  کہ  دانتوں کی صفائی ، روٹ کنال وغیرہ والاکام افطارکاوقت ہوجانے کے بعدکروایا جائے ۔

   حاشیۃ الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے :”(و)یسن( المبالغۃ فی المضمضۃ )وھو ایصال الماء لراس الحلق(و)المبالغۃ فی(الاستنشاق )وھی ایصالہ الی فوق المارن (لغیر الصائم )والصائم لا یبالغ فیھما خشیۃ افساد الصوم۔لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام”بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما یعنی کلی کرنے میں مبالغہ یعنی حلق کی جڑ تک پانی پہنچانا اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ یعنی ناک کے نرم گوشے سے اوپر تک پانی پہنچانا، اس شخص کے لئے سنت ہےجو روزے سے نہ ہو جبکہ روزہ دار ان دونوں چیزوں میں روزہ ٹوٹنے کے خطرے کےپیشِ نظر مبالغہ نہیں کرےگا ، اس لئے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرومگر یہ کہ روزے سے ہو (تو مبالغہ نہ کرو)۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ، ج 1 ،ص70،  الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

    بہار شریعت صدر الشریعہ  علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :” کلی کر رہا تھا بلا قصد پانی حلق سے اُتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دماغ کو چڑھ گیا روزہ جاتا رہا، مگر جبکہ روزہ ہونا بھول گیا ہو تو نہ ٹوٹے گا اگرچہ قصداً ہو۔ یوہیں کسی نے روزہ دار کی طرف کوئی چیز پھینکی، وہ اُس کے حلق میں چلی گئی روزہ جاتا رہا۔        (بہار شریعت ، ج 1 ، حصہ 5 ، ص987 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

    منجن کے متعلق فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”  منجن ناجائز و حرام نہیں جبکہ اطمینانِ کافی ہو کہ اس کا کوئی جزو حلق میں نہ جائے گا ،مگر بے ضرورتِ صحیحہ کراہت ضرور ہے ۔درِّ مختار میں ہے: ”کرہ لہ ذوق شیء۔۔۔الخیعنی روزہ دار کو کسی چیز کا چکھنا مکروہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ ، ج 10 ، ص 551 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    رد المحتار میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :" من قلع ضرسه في رمضان ودخل الدم إلى جوفه في النهار ولو نائما فيجب عليه القضاء"ترجمہ :  جس نے  رمضان میں دن کو  داڑھ   نکلوائی  اور خون پیٹ تک پہنچ گیا اگرچہ سویا  ہوا ہو  تو اس پر قضا لازم ہے ۔  ( رد المحتار ، ج 2 ، ص 396 ، الناشر: دار الفكر-بيروت )

    بہار شریعت میں ہے"روزہ میں دانت اکھڑوایا اورخون نکل کر حلق سے نیچے اُترا، اگرچہ سوتے میں ایسا ہوا تو اس روزہ کی قضا واجب ہے۔"(بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص 986،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم