روزے میں دانتوں میں پھنسی چیز نگلنے سے روزے کا حکم

دانتوں میں پھنسی ہوئی چیز روزے کی حالت میں نگل لینے سے روزے کا حکم

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-666

تاریخ اجراء:18 شعبان المعظم 1446 ھ/17 فروری  2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ  اگر روزے کی حالت میں منہ کے اندر کوئی چیز پھنس گئی  ہواور کوئی شخص اس کو غلطی سے نگل لے، تو کیا  اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر روزے دار کے  منہ میں پھنسی چیز قلیل مقدار میں ہو یعنی  چنے کی مقدار  سے کم ہوتو اس کے حلق میں اترنے  یا اتارنےسے روزہ نہیں ٹوٹے گا،اگرچہ روزہ دار ہونا یاد ہو۔ ہاں البتہ اگر وہ چیز  کثیر مقدار میں ہویعنی  چنے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، توروزہ یاد  ہونے کی صورت میں اس کے حلق میں اُترنے یا اُتارلینے سے  روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی قضا لازم ہوگی۔

   چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے: ’’و لو بقي بين أسنانه شيء فابتلعه ذكر في الجامع الصغير أنه لا يفسد صومه، و إن أدخله حلقه متعمدا، روي عن أبي يوسف أنه إن تعمد عليه القضاء و لا كفارة عليه و وفق ابن أبي مالك فقال: إن كان مقدار الحمصة، أو أكثر يفسد صومه و عليه القضاء و لا كفارة كما قال أبو يوسف- رحمه الله تعالى-، و قول أبي يوسف محمول عليه، و إن كان دون الحمصة لا يفسد صومه، كما لو ذكر في الجامع الصغير، و المذكور فيه محمول عليه و هو الأصح و وجهه أن ما دون الحمصة يسير يبقى بين الأسنان عادة، فلا يمكن التحرز عنه بمنزلة الريق، فيشبه الناسي و لا كذلك قدر الحمصة فإن بقاءه بين الأسنان غير معتاد فيمكن الاحتراز عنه فلا يلحق بالناسي‘‘ ترجمہ: اور اگر روزے دار کے دانتوں کے درمیان کچھ باقی رہ جائے اور وہ اُسے نگل لے، تو جامع الصغير میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ اور اگر وہ جان بوجھ کر اُسے حلق میں داخل کرے، تو امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ سے روایت ہے کہ اگر اس نے قصداً ایسا کیا تو اس پر قضا لازم ہوگی لیکن کفارہ نہیں ہوگا۔ ابن ابی مالک نے اس میں تطبیق کرتے ہوئے فرمایا کہ  اگر وہ چیز چنے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا اور اس پر قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہیں ہوگا جیسا کہ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ نے فرمایا،اور  امام ابو یوسف کا قول بھی اسی پر محمول ہے۔ اور اگر وہ چنے سے کم ہو، تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا، جیسا کہ جامع الصغير میں ذکر کیا گیا ہے، اور جو اس میں مذکور ہے وہ اسی پر محمول ہے، اور یہی قول اصح (زیادہ درست) ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چنے سے کم مقدار معمولی چیز ہوتی ہے جو دانتوں کے درمیان عادتا باقی رہ جاتی  ہے تو یہ بمنزلہ تھوک کے ہے اس سے بچنا ممکن نہیں، لہٰذا یہ بھول جانے والے شخص کے مشابہ ہو جائے گا۔ اور  چنے کے برابر مقدار کا معاملہ ایسا نہیں کہ اس کا دانتوں میں باقی رہنا غیر معتاد ہے(یعنی عادتا ایسا نہیں ہوتا)، اور اس سے بچنا ممکن ہوتا ہے، اس لیے یہ بھول جانے والے کے ساتھ لاحق نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 90، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: ’’(ابتلع ما بين أسنانه و هو دون الحمصة) لأنه تبع لريقه، و لو قدرها أفطر‘‘ ترجمہ: اگر اس نے اپنے دانتوں کے درمیان (پھنسی ہوئی)کسی چیز کو نگل لیا اور وہ چنے کے برابر مقدارسے کم تھا(تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا) کیونکہ  یہ  روزے دار کےتھوک کے تابع ہوگا۔ لیکن اگر وہ چنے کے برابر ہو( یا اس سے زیادہ ہو) تو روزہ ٹوٹ  ہو جائے گا۔(تنویر الابصار مع درمختار، جلد 3، صفحہ 422، دار المعرفۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم