مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3665
تاریخ اجراء:19 رمضان المبارک 1446 ھ/ 20 مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
میں نے 26 رمضان کو پاکستان آنا ہے۔ پاکستان میں جب میری فلائٹ اترے گی اس وقت تقریباً ساڑھے چار کا ٹائم ہوگا، باہر آتے آتے ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اس وقت تک سحری کا ٹائم ختم ہوجائے گا۔ تو کیا اس دن سفر میں ہونے سے مجھے وہ روزہ معاف ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پاکستان کے جس شہر میں آپ کی فلائٹ اترے گی اگر وہ آپ کا وطن اصلی نہیں ہے یا وطن اصلی تو ہے لیکن ایئر پورٹ شہر کی آبادی سے باہر ہے اور صبح صادق کے وقت آپ شرعی مسافر ہی ہوں گے تو آپ کو اس دن کا روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے، البتہ اگر کوئی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ روزہ رکھ لیں۔ لیکن اگر سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے آپ شرعی مسافرنہ رہے مثلا ایئر پورٹ آبادی میں ہے اور وہ شہر آپ کاوطن اصلی ہے تو اب روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی، سحری کے لیے جہاز میں یا ائیر پورٹ پر کوئی انتظام کرلیجیے، کیونکہ شریعت مطہرہ نے رخصت اس صورت میں دی ہے جب صبح صادق کے وقت بندہ شرعی مسافر ہو۔
نوٹ: مسافر جس صورت میں رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ سکتا ہے رمضان المبارک کے بعد اسے اس روزے کی قضا کرنا فرض ہے۔
مسافر شرعی کو سفر کی حالت میں روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے، چنانچہ مراقی الفلاح میں ہے: و للمسافر۔۔۔ فلہ الفطر
ترجمہ: مسافر کو روزہ چھوڑنے کا اختیار ہے۔
اس عبارت کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے: أي سفرا شرعيا وهو الذي تقصر فيه الصلاة
ترجمہ: یعنی سفر شرعی اختیار کرنے والے مسافرکو اور یہ وہ سفر ہے جس میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص 685 ،686، دار الكتب العلمية، بيروت)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا: جو اپنے گھر سے تین منزل کامل یا زیادہ کی راہ کا ارادہ کر کے چلے خواہ کسی نیت اچھی یا بُری سے جانا ہو، وُہ جب تک مکان کو پلٹ کرنہ آئے یا بیچ میں کہیں ٹھہرنے کی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت نہ کرلے مسافر ہے، ایسے شخص کو جس دن کی صبح صادق مسافرت کے حال میں آئے اُس دن کا روزہ ناغہ کرنا اور پھر کبھی اس کی قضا رکھ لینا جائز ہے، پھر اگر روزہ اسے نقصان نہ کرے نہ اُس کے رفیق کو اُس کے روزہ سے ایذا ہو جب تو روزہ رکھنا ہی بہتر ہے ورنہ قضا کرنا بہتر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 347 ،348، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم