ضحوی کبری سے پہلے پہلے قضا روزے کی نیت کرنا

 

ضحوی کبری سے پہلے پہلے قضا روزے کی نیت کرنا

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3595

تاریخ اجراء:18شعبان المعظم 1446ھ/17فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   زوال یعنی ضحوۂ کبری سے پہلے پہلے قضا روزے کی نیت کر لی جائے تو کیا روزہ ہو جائے گا ؟  سحری میں آنکھ نہیں کھلی اور نمازِ فجر کے وقت ذہن کچا پکا سا تھا ، ابھی ضحوۂ کبری سے پہلے نیت کر لی جائے تو کیا روزہ ہو جائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رمضان کے قضا روزےمیں طلوع فجرکے وقت نیت کاہوناضروری ہے ،خواہ عین اسی وقت کی جائے یااس سے پہلےرات میں ، لہذاطلوع فجرہوجانے کے بعد ضحوۂ کبری سے پہلے نیت کرنا کافی نہیں ہو گا اوراس طرح یہ روزہ نہیں ہو گا ۔ مزید یہ بھی جان لیں کہ نیت ، دل کے پکے ارادے کو کہتے ہیں ،ذہن کا کچا پکا ہونا نیت کے لیے کافی نہیں ۔

   الدر المختار  میں ہے :" (والشرط للباقي) من الصيام قران النية للفجر ولو حكما وهو (تبييت النية) للضرورة (وتعيينها) لعدم تعين الوقت.والشرط فيها: أن يعلم بقلبه أي صوم یصومه " ترجمہ : تین کے علاوہ باقی روزوں کے لیے طلوعِ فجر کے وقت  نیت کا ہونا شرط  ہے اگرچہ حکمی طور پر نیت پائی جائے یعنی رات سے ہی نیت کر لی جائے اور ان روزوں کو معین کرکے نیت کرنا بھی شرط ہے ؛ کیونکہ ان کا کوئی خاص وقت معین نہیں ہوتا ، اور نیت میں شرط یہ ہے کہ دل سے یہ جانتا ہو کہ کونسا روزہ رکھا ہے ۔

   اس کےتحت رد المحتار میں ہے:" (قوله: والشرط للباقي من الصيام) أي من أنواعه ۔۔۔وهو قضاء رمضان والنذر المطلق، وقضاء النذر المعين " ترجمہ :  (روزوں ) یعنی روزے کی اقسام میں سے (باقی روزوں کے لیے شرط ہے ) اور "بقیہ  روزوں "سے مراد  رمضان کا قضا روزہ ، نذر مطلق کا روزہ  اور  نذر معین کا قضا  روزہ   وغیرہ ہے۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الصوم،ج 3،ص 397،398،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے”ادائے رمضان اور نذر معیّن اور نفل کے علاوہ باقی روزے، مثلاً قضائے رمضان اور نذر غیر معیّن اور نفل کی قضا (یعنی نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اس کی قضا) اور نذر معیّن کی قضا اور کفّارہ کا روزہ اور حرم میں شکار کرنے کی وجہ سے جو روزہ واجب ہوا وہ اور حج میں وقت سے پہلے سر منڈانے کا روزہ اور تمتع کا روزہ، ان سب میں عین صبح چمکتے وقت یا رات میں نیّت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو روزہ رکھنا ہے، خاص اس معیّن کی نیّت کرے اور اُن روزوں کی نیّت اگر دن میں کی تو نفل ہوئے پھر بھی ان کا پورا کرنا ضرور ہے توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ اگرچہ یہ اس کے علم میں ہو کہ جو روزہ رکھنا چاہتا ہے یہ وہ نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوگا۔“(بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص 971،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم