دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نومولود بچے کے بالوں کے وزن کے برابر، جو چاندی صدقہ کرنے کا حکم ہے، کیا یہ چاندی شرعی فقیر کو دینا لازم ہے؟ یا بغیر حیلہ کسی بھی نیک کام میں خرچ کر سکتے ہیں؟ اس کے متعلق رہنمائی فرما دیں۔
سائل: مزمل (فیصل آباد)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نومولود بچے کے بال منڈوانا اور ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا مستحب ہے، چونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لیے اسے صرف شرعی فقیر کو ہی دینا لازم و ضروری نہیں، بلکہ غنی کو دینا یا کسی بھی کارِ خیر میں صرف (خرچ) کرنا بھی جائز ہے اور اس کے لیے کسی شرعی حیلے کی ضرورت بھی نہیں۔ البتہ غنی کی بجائے فقیر و محتاج کو دینا، زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
نو مولود بچے کے بال اتارنے اور اس کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عق رسول اللہ عن الحسن بشاة، و قال: يا فاطمة احلقي رأسه، و تصدقي بزنة شعره فضة. قال: فوزنته فكان وزنه درهما أو بعض درهم
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے عقیقہ میں بکری ذبح کی اور یہ فرمایا کہ ’’اے فاطمہ! اس کا سرمونڈا دو اور بال کے وزن کے برابر کی چاندی صدقہ کرو‘‘ ہم نے بالوں کا وزن کیا، تو وہ ایک درہم یا درہم کے بعض حصہ کے برابر تھے۔ (سنن الترمذي جلد 3، صفحه 179، مطبوعه دار الغرب الإسلامي، بيروت)
نومولود بچے کے بالوں کے برابرچاندی صدقہ کرنا مستحب ہے، جیساکہ مذكوره حديث مبارك كے الفاظ
يا فاطمة احلقي
کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
و هو أمر ندب فيه و فيما بعده
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حلق کروانے اور اس کے بعد والےکام (چاندی صدقہ کرنے) کا حکم دیا، یہ عمل مستحب ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ 2689، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)
رد المحتار میں ہے:
يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه و يحلق رأسه و يتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا
ترجمہ: جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو، اس کے لیے مستحب ہے، بچے کا ساتویں دن نام رکھے، اس کے سر کو مونڈوائےاور آئمہ ثلاثہ کے نزدیک ان بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرے۔ (رد المحتار، جلد 9، صفحہ 554، مطبوعہ کوئٹہ)
صدقہ نافلہ میں تملیک فقیر ضروری نہیں، جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”چرم قربانی کا تصدق اصلاً واجب نہیں، ایک صدقہ نافلہ ہے، اس میں اشتراطِ تملیک کہاں سے آیا، بلکہ ہر قربت جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 488، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدقہ نافلہ غنی کو بھی دے سکتے ہیں، جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے:
و أما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني
ترجمہ: نفلی صدقہ، غنی کو دینا جائز ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 47، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
نفلی صدقہ غنی کی بجائے فقیر کودینے میں زیادہ ثواب ہے، جیساکہ ردالمحتارمیں ہے:
و صرح في الذخيرة بأن في التصدق على الغني نوع قربة دون قربة الفقير
ترجمہ: اور ”الذخیرہ“ میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ مالدار پر صدقہ کرنا بھی ایک قسم کی نیکی ہے، مگر فقیر پر صدقہ کرنے کی نیکی کے درجے سے کم ہے۔ (ردالمحتارعلی الدرالمختار، جلد 6، صفحہ 517،مطبوعہ كوئٹہ)
نفلی صدقہ بغیر حیلہ شرعی ہر نیک کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے، جیساکہ فتاوی بحر العلوم میں ہے: ”صدقات نافلہ، جیسے چرم قربانی، چندہ، ہدیہ وغیرہ کو کسی امر خیر میں صرف کرنے کے لیے حیلہ کرنے کی ضرورت نہیں،وہ براہ راست بھی تمام مصارف میں خرچ ہو سکتا ہے۔ (فتاوی بحرالعلوم، جلد 2، صفحہ 207- 208، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9510
تاریخ اجراء: 19 ربیع الاول 1447ھ /13 ستمبر 2025ء