
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فطرانہ رمضان المبارک کے بعد دے سکتے ہیں؟ رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
فطرہ رمضان ہی میں ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ فطرہ تو واجب ہی رمضان المبارک کے اختتام پر ہوتا ہے یعنی عید کے دن صبح صادق کے طلوع ہونے پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے اور اس کی ادائیگی کا سنت طریقہ یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلےادا کیا جائے، تاہم رمضان المبارک کے دوران یا اس سے بھی پہلے فطرہ ادا کرنا جائز ہے جب کہ وہ شخص موجودہو، جس کی طرف سے ادا کیا جارہا ہے، یونہی عید الفطر کے بعد دینا بھی جائز ہے البتہ زیادہ تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہےلیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہے کہ اس کا وقت عمر بھر ہوتا ہے، یعنی اگر ادا نہ کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے۔
تبیین الحقائق میں ہے
تجب صدقة الفطر بطلوع الفجر من يوم الفطر
ترجمہ:صدقہ فطرواجب ہوتاہے عید الفطر کے دن صبح صادق کے طلوع ہونے پر۔ (تبیین الحقائق، باب صدقۃ الفطر، ج 01، ص 310، مطبوعہ: قاھرہ)
در مختار میں ہے
(تجب موسعا في العمر) عند أصحابنا و هو الصحيح بحر عن البدائع معللا بأن الأمر بأدائها مطلق
ترجمہ: ہمارے اصحاب کے نزدیک صدقہ فطر واجب ہے اور عمر بھر اس کا وقت ہے، اور یہی صحیح ہے، بحر میں بدائع کے حوالے سے اس کی یہ علت بیان کی کہ اس کی ادائیگی کا حکم مطلق ہے۔ اس کے تحت رد المحتار میں ہے
(قوله: مطلق) أي عن الوقت فتجب في مطلق الوقت و إنما يتعين بتعيينه فعلا أو آخر العمر، ففي أي وقت أدى كان مؤديا لا قاضيا
ترجمہ: (مصنف کا قول: مطلق) یعنی وقت سے مطلق، پس یہ مطلق وقت میں واجب ہوتا ہے اور ادائیگی کے ساتھ یا عمر کے آخری حصے میں ہی متعین ہوتا ہے، لہذا پوری عمر میں جب بھی ادا کرے گا، ادا کرنے والا ہی ہو گا، قضا کرنے والا نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 358 ، 359، مطبوعہ: دار الفکر، بیروت)
مراقی الفلاح میں ہے
و يستحب إخراجها قبل الخروج إلى المصلى و صح لو قدم أو أخر و التأخير مكروه
ترجمہ: صدقہ فطر عید کی نماز کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلنے سے پہلے ادا کرنا مستحب ہے،اور اگر کوئی اس سے مقدم یا مؤخر کرے تب بھی جائز ہے، البتہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 273، مطبوعہ: المكتبة العصرية، بیروت)
در مختار میں ہے
(و يستحب إخراجها قبل الخروج إلى المصلى بعد طلوع فجر الفطر) عملا بأمره و فعله - عليه الصلاة و السلام و صح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره۔۔۔ و الأمر في حديث "أغنوهم" للندب فيفيد الأولوية، و لذا قال في الظهيرية: لا يكره التأخير أي تحريما
ترجمہ: صدقہ فطر کو عید کے دن فجر طلوع ہونے کے بعد، نمازِ عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنا مستحب ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے حکم اور فعل دونوں پرعمل ہے۔ اور اگر کوئی شخص فطرہ عید کے دن سے پہلے یا بعد میں ادا کرے، تو بھی ادائیگی صحیح ہے۔ اور حدیثِ مبارکہ "اس دن محتاجوں کو سوال سے بے نیاز کر دو" اس میں جو حکم ہے وہ ندب (استحباب) کے لیے ہے، پس اس سے نماز عید سے پہلے دینےکا اولی ہونا ثابت ہوتا ہے، اسی لیے ظہيریہ میں فرمایا گیا: فطرہ میں تاخیر مکروہ تحریمی نہیں ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 140، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ، بيروت)
بہار شریعت میں ہے” صدقہ فطر واجب ہے، عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی اگر ادا نہ کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے، اگرچہ مسنون قبل نمازِ عید ادا کر دینا ہے۔“(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 935، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
بہار شریعت میں ہے ”فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے جب کہ وہ شخص موجود ہو جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے۔۔۔ بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔“ (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 5، صفحہ 939 ، 940، مطبوعہ: مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3992
تاریخ اجراء: 11 محرم الحرام 1447ھ / 07 جولائی 2025ء