
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سود کی رقم کے متعلق حکم ہے کہ یا تو دینے والے کو واپس کریں یافقیر شرعی پر صدقہ کریں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا سید کو بطور صدقہ دیا جا سکتا ہے جبکہ وہ فقیر شرعی ہو؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سود کی رقم سید سمیت تمام بنو ہاشم (یعنی حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل اورحضرت عباس و حضرت حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد، اور ان کے موالی یعنی آزاد کردہ غلام) کو نہیں دے سکتے، ناجائز ہے۔
اوّلًا اس لیے کہ یہ واجب صدقہ ہے اور فقہاءِ کرام نے یہ تفصیل فرمائی ہے کہ بنو ہاشم کو، زکوٰۃ، عشر، کفارہ وغیرہ کوئی بھی واجب صدقہ نہیں دیا جاسکتا، صرف نفلی صدقہ دے سکتے ہیں۔
ثانیاً اس لئے کہ زکوٰۃ وغیرہ صدقات واجبہ بنو ہاشم کو نہ دینے کی جو علت بیان ہوئی،وہ علت سود کی رقم دینے میں بھی متحقق ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی ادائیگی سے بندہ اپنے آپ کو پاکیزہ و ستھرا کرتا ہے، جس کے سبب صدقہ کے طور پر دیا جانے والا مال، گندا و میلا ہوجاتا ہے اور بنو ہاشم کی شان کے لائق نہیں ہوتا کہ ان کو یہ گندا و میلا مال دیا جائے۔ اس اعتبار سے سود کی رقم کا جائزہ لیں تو یہ علت بدرجہ اتم اس میں موجود ہوتی ہے کہ سود لینے کی وجہ سے بندہ گناہ گار ہوتا ہے اور سود میں لیا گیا مال، صرف میلا نہیں بلکہ مال خبیث کہلاتا ہے۔ گناہ سے پاک ہونے کے لیے بندہ پر لازم ہوتا ہے کہ توبہ کے ساتھ اس خبیث مال سے جان چھڑائے اور دینے والے کو واپس کرے یا فقراء پر صدقہ کرے، یوں درحقیقت یہاں بھی جو صدقہ کیا جاتا ہے،وہ اپنی پاکی، دفع خبث اور گناہ مٹانے کے لئے ہوتا ہے تو جب صرف میلا و گندا مال بنو ہاشم کی شان کے لائق نہیں، تو اس سے کئی گنا زائد گندا و میلا و خبیث مال بدرجہ اولیٰ ان کی شان کے لائق نہیں ہوگا، لہٰذا زکوٰۃ و عشر وغیرہ صدقات واجبہ کی طرح سود کی رقم بھی بنو ہاشم کو نہیں دی جا سکتی۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی فضیل رضا عطّاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2025ء