کیا بیمار شخص کے روزوں کا فدیہ دے سکتے ہیں؟

بیمار شخص کے لیے روزوں کا فدیہ دینا جائز  ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9277

تاریخ اجراء:28  شعبان المعظم 1446 ھ /  27فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے  میں  کہ  ایک خاتون کی عمر 63 سال ہے اور وہ درج ذیل چار بیماریوں میں مبتلا ہیں: کینسر، بلڈپریشر، شوگر، ہارٹ اٹیک۔ ان بیماریوں کے  سبب اس کے بیس روزے قضا ہوگئے،  ڈاکٹر  نےان کوفی الحال  روزہ  رکھنے سے منع کیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ ان  سابقہ روزوں کی قضا ہی  ضروری ہے یا اس  کا فدیہ بھی  دیا جاسکتا ہے؟ نیز ابھی چنددن کے بعد رمضان المبارک کا  مہینہ شروع ہونے والا ہے تو کیا اس رمضان المبارک  کے روزوں  کا فدیہ بھی دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ نیز   چند سال پہلے کینسر  کے آپریشن کے دوران بے ہوشی کی کیفیت میں چار نمازیں  قضا ہوئیں اور دو دن کی نمازوں کے وقت بے  ہوشی نہیں تھی، صرف  بیماری کے سبب   قضا ہوئیں،   اب ڈاکٹر نے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، تو دیگر دودن کی نمازوں کی طرح بے ہوشی کی حالت میں رہ جانے والی نمازوں کی بھی قضا کرنی ہوگی یا وہ معاف ہیں اور اب قضا کس  طرح  پڑھی جائے۔ فی الحال  طبیعت بہتر ہے، بیٹھ کر رکوع وسجود کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں لیکن کبھی کبھار  اشارے سے بھی نماز پڑھ لیتی ہیں؟

   نوٹ: سائل کی وضاحت کے مطا بق مریض  شیخ فانی نہیں ہے یعنی فی الحال بیماری کی وجہ سے  روزہ رکھنے  کی طاقت نہیں، لیکن  کچھ عرصہ  میں امید ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائیں گی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں مریضہ کے لیے روزوں کا فدیہ دینا جائز نہیں، کیونکہ فدیہ کا حکم صرف شیخ فانی کے لیے ہے اور شیخ فانی وہ شخص ہوتا ہے جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ حقیقتاً اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہی نہ ہو، نہ سردی میں نہ گرمی میں، نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو، البتہ اگر  فی الحال بیماری کی  وجہ سے روزہ رکھنا  نقصان کا باعث ہواور کسی  مسلمان ماہر طبیب نے روزہ رکھنے سے منع کیا ہو، تو تندرست ہونے تک اسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے   کے بعد ان روزوں کی قضا لازم ہوگی۔

   اور چونکہ مذکورہ خاتون  شیخ فانی کے حکم میں  نہیں، بلکہ  ڈاکٹر نے   انہیں بیماری کے سبب فی الحال روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، تو گزشتہ  بیس روزوں    کافدیہ دینا فی الحال جائز نہیں، تندرست ہونے پر ان کی قضا کرنی ہوگی، یونہی  اگر بیماری کے سبب آنے والے رمضان المبارک  کے روزے نہ رکھ سکتی ہوں، تو ان کو  فی الحال روزےچھوڑنے کی اجازت ہے، لیکن  ابھی ان کا فدیہ دینا  جائز نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ بیماری جانے کاانتظار کریں، اگر بیماری چلی جائے تو سابقہ روزوں کی قضا کریں اوراگر آخری وقت تک شفا یاب نہ ہوں  اور مرض الموت طاری ہو، تو سابقہ روزوں  کے فدیہ  کی وصیت کردیں۔

   جہاں تک   قضا ہونے والی نمازوں  کامعاملہ  ہے، تو اس کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ دیگر دودن کی  نمازوں کی طرح بے  ہوشی کی حالت میں  رہ جانے والی چار نمازیں بھی  معاف نہیں ہوں گی، بلکہ ان کی قضا کرنا بھی   لازم ہوگا، کیونکہ اگرکسی  شخص کی چھ سے کم نمازیں بے ہوشی کی حالت میں  رہ جائیں، جیسے سوال میں  چار نمازوں کا بتایا گیا ہے، تو ان کی قضا کرنا لازم ہوتی ہے، البتہ اگر چھ سے زیادہ نمازوں کے دوران  بے ہوشی رہے، تو ان نمازوں کی قضا لازم نہیں ہوتی۔ نیز قضا نماز کی ادائیگی کے وقت کوئی شرعی عذر پایا جائے، مثلاً مریض   قیام پر قادر ہی نہ ہو یا   قیام کے سبب اسےمرض زیادہ ہونے کا خوف ہو   لیکن بیٹھ کر رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہو، تو بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرنا، لازم ہے،  اس صورت میں  اشارہ  سے  نماز پڑھنا کفایت نہیں کرے گا، اگر پڑھ لی، تو   دوبارہ پڑھنا لازم    ہوگا۔

   اب بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجئے:

   شیخِ فانی کو روزے کا فدیہ دینے کی اجازت ہے، جیسا کہ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے: ”(و للشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر و يفدي) وجوبا لو موسراً“ ترجمہ: شیخ فانی جوروزہ رکھنے سے بالکل عاجز آجائے اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور اس روزے کے بدلے فدیہ دینا واجب ہے، اگر وہ غنی  ہو۔(تنویر الابصار و در المختار، جلد 03، صفحہ 472، مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر آخری وقت تک  شفایابی نہ ہو، تو فدیہ کی وصیت کردے، جیساکہ  فتاوی رضویہ میں ہے: جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے، انہیں بھی کفار ہ دینے کی اجازت نہیں، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبلِ شفاموت آجائے ،تواس وقت کفارہ کی وصیت کردیں، غرض یہ ہے کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہوجیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے ایسا ضعیف کردیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ 547، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مریض کو کب روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اس کے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے۔۔۔ کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔  ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں۔ (1) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا (2) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا (3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔“(بھار شریعت، حصہ 5، صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ کراچی)

   بے ہوشی کے سبب قضا  ء ہونے والی  نمازوں کے متعلق تفصیلی کلام کرتے ہوئے علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال ِوفات: 616 ھ /1219 ء) لکھتےہیں: ’’إذا أغمي على الرجل يوم و ليلة أو أقل يلزمه قضاء الصلوات، و إن أغمي عليه أكثر من ذلك فلا قضاء عليه و هذا الاستحسان۔۔۔ وجه الاستحسان: حديث علي  فإنه أغمي عليه في أربع صلوات فقضاهن، و عمار بن ياسر أغمي عليه يوم و ليلة فقضى الصلوات، و ابن عمر  أغمي عليه في ثلاثة أيام فلم يقض الصلوات“ ترجمہ :اگر کسی شخص پر ایک دن اور رات یا اس  سے کم بے ہوشی طاری رہی، تو اس پر ان نمازوں کی قضا لازم  ہوگی  اور اگر اس سے  زیادہ بے ہوشی طاری رہی، تو پھر ان نمازوں کی قضا لازم نہیں ہو گی اور یہ مسئلہ استحسانا ً ہے۔ استحسان کی  وجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہے  کہ آپ   پر چار نمازوں کے وقت بے ہوشی طاری رہی  تو  آپ  نے (بعد میں) ان کی قضاء پڑھی، اورحضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پر ایک دن اور رات بے ہوشی طاری رہی  توآپ   نے ان   نمازوں کی قضا  ء پڑھی  اور حضرت  ابن عمر رضی اللہ عنہ پر تین دن بے ہوشی طاری  ہوئی تو آپ نے ان نمازوں کی قضا نہیں پڑھی۔(المحیط البرھانی، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 145، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   بہار شریعت میں ہے :”بے ہوشی اگر پورے چھ وقت کو گھیرلے تو ان نمازوں کی قضا بھی نہیں۔۔۔ اور اس سے کم ہو تو قضا واجب ہے۔“(بھار شریعت، حصہ 4، صفحہ 723، مکتبۃ المدینہ کراچی)

   قیام سے عاجز ہو یا قیام سے مرض بڑھنے کا  خدشہ ہوتو بیٹھ کر  نماز پڑھے ،جیساکہ علامہ شیخی زادہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1078 ھ/1667ء) لکھتے ہیں: ”(عجز عن القيام۔۔۔أو خاف زيادة المرض۔۔۔بسببه) أي القيام (صلى قاعدا۔۔۔ يركع ويسجد) إن قدر“ ترجمہ: جو شخص قیام سے عاجز ہو یا قیام کے سبب اسے  مرض زیادہ ہونے کا خوف ہو تو وہ بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے اگر رکوع و سجود پر قادر ہو۔(مجمع الانہر، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صٖفحہ  154، دار إحياء التراث العربي)

   بیٹھ کر رکوع وسجود  پر قدرت ہوتو اشارہ سے نماز پڑھنا جائز نہیں، جیساکہ  شیخ الاسلام   ابو الحسن على بن حسین السغدى حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  (سالِ وفات: 461ھ /1068ء)  لکھتے ہیں: ’’يصليها قاعدا يؤمن ايماء و هو يقدر على الركوع و السجود فانها لا تجزيه في قول الفقهاء“ ترجمہ: بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اگر رکوع و سجود پر قادر ہو، پھر بھی وہ رکوع و سجود کے اشارے سے نماز پڑھے تو فقہاء کے قول کے مطابق اسے یہ نماز کفایت نہیں کرے گی۔ (النتف فی الفتاوی، جلد 1، صفحه  112، مطبوعه موسسة الرسالة، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم