نابالغ پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے؟

 

نابالغ پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13751

تاریخ اجراء:20 رمضان المبارک 1446 ھ/21 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک نابالغ بچہ ہے ،اس کی ملکیت میں سونا اور کیش موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے کافی زیادہ ہے اور یہ مال اس کے والد نے بحفاظت اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ باپ نے اس کاصدقۂ فطر ادا کرنا ہو،تو کیا اس کے مال سے ادا کرے گا یا اپنے مال سے بھی اس کا صدقۂ فطر ادا کر سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس نابالغ بچے کی ملکیت میں حاجت سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد مال موجود ہے، تو صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے اس کا صدقۂ فطر اسی کے مال میں واجب ہوگا، لہٰذا اس کے والد کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کے مال سے اس کا صدقۂ فطر ادا کردے، البتہ اگر والد نے نابالغ کے مال سےاس کا  صدقۂ فطر ادا کرنے کے بجائے، اپنے مال سے ادا کردیا، تو بھی صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا کہ جو شخص عیال میں ہو، اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنے کی صورت میں استحساناً صدقۂ فطر ادا ہوجاتا ہے۔

   رد المحتار میں بدائع الصنائع سے منقول ہے:”أما العقل ، والبلوغ فليسا من شرائط الوجوب في قول أبي حنيفة وأبي يوسف حتى تجب على الصبي ، والمجنون إذا كان لهما مال ويخرجها الولي من مالهما “یعنی امام اعظم و امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہما کے قول کے مطابق عاقل و بالغ ہونا صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرائط سے نہیں ہے  حتی کہ بچہ اور مجنوں پر بھی صدقۂ فطر واجب ہوگا جبکہ ان کے پاس مال ہو اور ان کا ولی ان کے مال سے ادا کرے گا۔(رد المحتار، جلد 3، صفحہ 365، مطبوعہ:بیروت)

   النھر الفائق میں ہے:”قالوا:ادی عن الزوجۃ والولد الکبیر جاز استحساناً وظاھر ما فی الظھیریۃ ان ھذا الحکم جار فی کل من فی عیالہ“یعنی فقہا نے فرمایا: کسی نے اپنی زوجہ و بڑے بیٹے کی طرف سے صدقۂ  فطر ادا کردیا، تو استحساناً جائز ہے  اور جو ظہیریہ میں اس کا ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم ہر اس شخص کے حق میں جاری ہوگا جو اس کے عیال میں ہے۔(النھر الفائق، جلد 1، صفحہ 473، مطبوعہ:بیروت)

   رد المحتار میں ہے:”قال في البحر : وظاهر الظهيرية أنه لو أدى عمن في عياله بغير أمره جاز مطلقا بغير تقييد بالزوجة والولد “یعنی بحر میں فرمایا: اور ظہیریہ کا ظاہر یہ ہے کہ اگر کسی نے اس شخص کی طرف سے بغیر اجازت صدقہ فطر ادا کردیا جو اس کے عیال میں ہے، تو مطلقاً جائز ہے اس میں زوجہ و بیٹے کی قید نہیں ہے۔(رد المحتار، جلد 3، صفحہ 370، مطبوعہ:کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”قربانی و صدقۂ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے ، تو بلا اجازت نا ممکن ہے ، ہاں اجازت  کے لئے صراحۃً ہونا ضرور نہیں ، دلالت کافی ہے، مثلاً :زید اس کے عیال میں ہے ، اس کا کھانا پہننا سب اس کے پاس سے ہونا ہے  یا یہ اس کا وکیلِ مطلق ہے ، اس کے کاروبار یہ کیا کرتا ہے ، ان صورتوں میں ادائیگی ہوجائے گی“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے:”نابالغ یا مجنون اگر مالکِ نصاب ہیں تو ان پر صدقہ فطر واجب ہے، اُن کا ولی اُن کے مال سے ادا کرے “(بہار شریعت ، جلد1، صفحہ 936، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم