غریب رشتے دار کو صدقہ دینا افضل ہے یا پڑوسی کو؟

غریب رشتے داراورغریب پڑوسی میں سے کسے صدقہ دینا افضل ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میں صدقہ خیرات ہر مہینے نکالتا ہوں، میرے پڑوس میں رہنے والے کافی غریب ہیں، لیکن میرا ایک چچا اور ایک خالہ ہے، وہ بھی بہت غریب ہیں، تو اب میں پڑوس والوں کو دوں یا اپنے چچا اور خالہ کو دوں؟ کس کو دینے میں زیادہ ثواب ملتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں چاچو اور خالہ کو صدقہ دینے میں زیادہ ثواب ہے، کیوں کہ حدیث پاک میں فرمایا: "عام مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے قرابت دار پر کرنا دو صدقے ہیں، ایک صدقہ، دوسرا صلہ رحمی۔" لہذا آپ ابتداً اپنے چاچو اور خالہ کو صدقہ، خیرات دیں، پھر اگر استطاعت ہو تو اپنے پڑوس میں جو غریب ہیں، انہیں بھی دیں۔

نوٹ: اگر آپ کی صدقہ و خیرات سے مراد زکوۃ یا کوئی اور صدقات واجبہ مراد ہے تو اس کے لئے چاچو یا خالہ کامستحق زکوٰۃہونا(یعنی سیدو ہاشمی بھی نہ ہوں اور شرعی فقیر ہوں) ضروری ہے، ورنہ صدقات واجبہ انہیں دینا جائز نہیں ہو گا۔ البتہ صدقات نافلہ دینا جائز ہے۔

اللہ عزوجل قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے:

یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ- قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ- وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ

ترجمہ کنز الایمان: تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے اور جو بھلائی کرو بےشک اللہ اسے جانتا ہے۔ (القرآن، پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت: 152)

اس آیت مبارکہ کے تحت احکام القرآن للجصاص میں ہے

و إنما المراد بها تقديم الأقرب فالأقرب في الإنفاق

 ترجمہ: اوراس سے مرادیہی ہے کہ خرچ کرنے میں جوسب سے قریبی ہے پہلے اس پرخرچ کیاجائے پھرجواس کے بعد قریبی ہے اس پر۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد 1، صفحہ 387، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

رشتہ داروں کو صدقہ دینے سے متعلق حدیث پاک میں ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا:

الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة و صلة

ترجمہ: عام مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور و ہی صدقہ اپنے قرابت دار پر کرنا دو صدقے ہیں، ایک صدقہ دوسرا صلہ رحمی۔ (سنن الترمذی، جلد 3، صفحہ38، حدیث: 658، مطبوعہ: مصر)

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: پہلے مسکین سے مراد اجنبی مسکین ہے یعنی اجنبی مسکین کو خیرات دینے میں صرف خیرات کا ثواب ہے اور اپنے عزیز مسکین کو خیرات دینے میں خیرات کا بھی ثواب ہے اور صلہ رحمی کا بھی۔ صلہ رحمی یعنی اہلِ قرابت کا حق ادا کرنا بھی عبادت ہے،بہترین عبادت،پھر جس قدر رشتہ قوی اسی قدر اس کے ساتھ سلوک کرنا زیادہ ثواب ہے اس لیے رب تعالیٰ نے اہلِ قرابت کا ذکر پہلے فرمایا کہ ارشاد فرمایا:

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ۔(مراٰۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 122، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

شرعی فقیر کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے ”فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کی قدر ہو تو اُس کی حاجتِ اصلیہ میں مستغرق ہو، مثلاً رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے، خدمت کے لیے لونڈی غلام، علمی شغل رکھنے والے کو دینی کتابیں جو اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 924، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مستحقِ زکوۃ کے متعلق فتاویٰ اہلسنت احکام الزکوٰۃ میں ہے ”زکوٰۃ لینے کا حقدار شرعی فقیر ہے شریعتِ مطہرہ نے شرعی فقیر ہونے کا ایک خاص معیار بیان فرمایا ہے چنانچہ مستحقِ زکوٰۃ ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ بالغ شخص حاجتِ اصلیہ سے زائد کم از کم مقدارِ نصاب کا مالک نہ ہو نصاب کی مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم ہے۔۔۔ لہذا اگر کسی کے پاس حاجتِ اصلیہ سے زائد کپڑے ہوں یا زائد اشیاء ہوں مثلاً ٹی وی ہو اور ان کی مشترکہ قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کے برابر پہنچ جائے تو ایسا شخص زکوٰۃ کا مستحق نہیں۔۔۔ تو جو مستحق ہو اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اگر مستحقِ زکوٰۃ ہونے کی شرائط نہ پائی گئیں تو دینے والے کی زکوٰۃ ہی ادا نہیں ہوگی۔“(فتاوٰی اھلسنت احکام الزکوٰۃ، صفحہ 447، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

بہارِ شریعت میں ہے ”زکاۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ اوّلاً اپنے بھائیوں بہنوں کو دے پھر اُن کی اولاد کو پھر چچا اور پھوپیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اور خالہ کو پھر اُن کی اولاد کو پھر ذوی الارحام یعنی رشتہ والوں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے شہر یا گاؤں کے رہنے والوں کو۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: اے اُمتِ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم)! قسم ہے اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا،اللہ تعالیٰ اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے، قسم ہے اُس کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 5، صفحہ 933، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4397

تاریخ اجراء: 11 جمادی الاولٰی 1447ھ / 03 نومبر 2025ء