
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عرضا یعنی چوڑائی میں داڑھی کی مقدار کیا ہے ؟ جس طرح طول یعنی لمبائی میں داڑھی جب ایک مٹھی سے زائد ہوجائے تو ہی زائد بالوں کو کاٹ سکتے ہیں، کیا اسی طرح عرض میں بھی یہی شرط ہے کہ ایک مٹھی سے زائد بال ہی کاٹ سکتے ہیں یا اس میں بغیر کسی شرط کے جتنے بال بھی ہوں کاٹ سکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حضور علیہ السلام اور صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال اور تصریحات فقہاء امت علیھم الرحمہ سے داڑھی کی حد ایک مشت ہونا معلوم ہے اور بالوں کا جو حصہ داڑھی میں شامل ہے وہ تمام ہی ایک مشت رکھنا واجب ہے، لہذا لمبائی یا چوڑائی میں داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنا یا بالکل کاٹ دینا دونوں ناجائز و گناہ ہیں اور ایک مشت سے زائد بالوں کا کٹوانا جائز ہے۔
اب داڑھی کی حد کیا ہے اس کو آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں اور ٹھوڑی پر جمتی ہے اور عرضا اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ میں ہوتا ہے، اب اگر کوئی شخص اپنے کانوں کے برابر والے بالوں میں سے وہ بال چھوٹے کرواتا ہے کہ جو قلموں سے نیچے لمبائی یا چوڑائی میں داڑھی کا حصہ ہیں تو وہ گنہگار ہو گا کیونکہ داڑھی کے بالوں کو لمبائی اور چوڑائی دونوں طرح سے ایک مشت پوری ہونے سے پہلے تھوڑا یا زیادہ کاٹنا جائز نہیں ہے۔ کسی حدیث و اثر یا فقہی جزئیے سے عرض میں داڑھی کو ایک مشت سے کم کاٹنے کا جواز ثابت نہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
’’كان أبو هريرة يقبض على لحيته، ثم يأخذ ما فضل عن القبضة‘‘
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی ہاتھ میں لیتے پھر جو ایک مشت سے زائد ہوتا اس کاٹ لیتے۔ (المصنف لابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ225، حدیث25481، مکتبۃ الرشد)
اسی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت نافع سے مروی ہے:
’’أنه كان يأخذ ما فوق القبض، وقال وكيع: ما جاوز القبضة‘‘
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما ایک مشت سے زائد کو کاٹتے تھے اور امام وکیع علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: جب ایک مشت سے تجاوز ہو جاتی تو کاٹتے تھے۔ (المصنف لابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ225، حدیث25485، مکتبۃ الرشد)
نیز جن روایات میں حضور علیہ السلام یا صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا داڑھی کے طول یا عرض سے بال کاٹنا مذکور ہے تو ان روایات کی شرح میں محدثین کرام نے واضح تصریح فرمائی ہے کہ ان حضرات عالیہ کا یہ عمل ایک مشت مکمل ہونے کے بعد داڑھی کے بالوں کو ایک برابر کرنے اور تزیین کے طور پر تھا ناکہ ایک مشت سے پہلے۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
’’أنَّ النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كانَ يأخذُ مِن لِحيتِه، مِن عرضها وطولِها‘‘
ترجمہ: حضور علیہ السلام اپنی داڑھی کے طول و عرض سے بال کاٹتے تھے۔
اس کے تحت المفاتيح فی شرح المصابيح میں علامہ مظہر الدین زیدانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’يعني: تسويةُ شَعرِ اللِّحية وتزيينُها سُنَّةٌ، وهي أن يقصَّ كلَّ شعرةٍ أطولَ من غيرها؛ لتستويَ جميعُها‘‘
ترجمہ: اس سے مراد داڑھی کے بالوں کو برابر کرنا اورمزین کرنا ہے یوں کہ جو بال بڑا ہے اسے کاٹ کر کم کردیا جائے تاکہ سب برابر ہو جائیں۔ (المفاتيح في شرح المصابيح، جلد5، صفحہ46، حدیث 3432، دار النوادر)
شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی اور علامہ عبد الرؤوف المناوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
واللفظ للاول: ’’وهو لا ينافي إحفاء اللحية وتوفيرها المأمور به، وإنما ينافيه قصها وقصرها عن القدر المسنون‘‘
ترجمہ: یہ کاٹنا اس حکم کے منافی نہیں جس میں داڑھی بڑھانے کا فرمایا ہے کیونکہ اس کے منافی تو داڑھی کو بالکل کاٹنا یا مسنون مقدار (یعنی: ایک مشت)سے کم کرنا ہے۔ (لمعات التنقیح، جلد 7، صفحہ418، دار النوادر، فیض القدیر، جلد 5،۔ صفحہ193، المكتبة التجارية)
اور اسی حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: (حضور علیہ السلام داڑھی کے طول و عرض سے کاٹتے تھے) اس طرح کہ لمبائی میں مٹھی بھر یعنی چار انگل سے زیادہ بالوں کو کاٹ دیتے تھے اور چوڑائی میں اس دائرے کے حد میں جو بال آتے باقی رکھے جاتے اس سے بڑھتے ہوئے کاٹ دیئے جاتے۔ چار انگل تک داڑھی رکھنا واجب ہے، داڑھی منڈانا یا کتروانا فسق ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما اپنے داڑھی مٹھی میں پکڑتے تو جومٹھی سے باہر بال ہوتے انہیں کاٹ دیتے تھے وہ عمل اس حدیث کی شرح ہے۔ (مرأۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 150، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:’’لحی جمع ہے لحیۃ کی بمعنی ڈاڑھی، رخسار اور ٹھوڑی پر جو بال ہیں انہیں لحیہ یعنی ڈاڑھی کہا جاتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ڈاڑھی کو ہاتھ نہ لگاؤ اسے بڑھنے دو اس کے بڑھنے کی حد دوسری حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی کی لمبائی چوڑائی سے کچھ کترتے تھے، اسے حضرت عبداللہ ابن عمر کے فعل شریف نے واضح کیا آپ چار انگلی یعنی مٹھی بھر سے زیادہ کو کٹوا دیتے تھے۔ ‘‘ (مرأۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 142، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
حضرت علامہ علی قاری، علامہ طیبی رحمہما اللہ تعالی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مشکوۃ کے تمام شارحین حدیث نے یہی شرح کی ہے کہ آپ علیہ السلام کا طول و عرض سے کچھ بال کاٹنا مقدار واجب کے بعد تھا، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’هذا لا ينافي قوله صلی اللہ علیہ وسلم: أعفوا اللحى ; لأن المنهي هو قصها كفعل الأعاجم أو جعلها كذنب الحمام، والمراد بالإعفاء التوفير منها كما في الرواية الأخرى، والأخذ من الأطراف قليلا لايكون من القص في شيء اهـ. وعليه سائر شراح المصابيح من زين العرب وغيره، وقيد الحديث في شرح الشرعة بقوله: إذا زاد على قدر القبضة، وجعله في التنوير من نفس الحديث۔ ۔ ۔ وفي النهاية شرح الهداية: واللحية عندنا طولها بقدر القبضة‘‘
ترجمہ: (حضور علیہ السلام کا طول و عرض سے بال کاٹنا) یہ آپ علیہ السلام کے فرمان: اور داڑھی کو معافی دو، اس کے خلاف نہیں کیونکہ ممنوع عجمیوں کی طرح داڑھی کو کاٹنا یا اسے کبوتر کی دم کی طرح بنانا ہے اور معافی دینے سے مراد داڑھی کو (مقدار واجب تک)بڑھانا ہے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے اور داڑھی کے کناروں سے کچھ کاٹنا یہ داڑھی سے کچھ بھی کاٹنا نہیں ہے۔ اور اسی پر مصابیح کے تمام شارحین مثل زین العرب وغیرہ ہیں اور شرعہ کی شرح میں حدیث کو اس قید سے مقید کیا ہے کہ جب داڑھی ایک مٹھی کی مقدار سے بڑھ جاتی (تو کاٹتے تھے) اور تنویر میں یہ جملہ نفس حدیث سے قرار دیا نیز نہایہ شرح ہدایہ میں ہے کہ ہمارے نزدیک داڑھی کو ایک مشت لمبا کرنا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ2822، دار الفكر)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں:
’’عن مجاهد قال: رأيت بن عمر قبض على لحيته يوم النحر ثم قال للحجام خذ ما تحت القبضة‘‘
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما یوم نحر میں اپنی داڑھی ہاتھ میں ایک مشت کے برابر لیتے پھر حجام سے فرماتے جو ایک مشت سے زائد ہے وہ کاٹ دو۔ (الاستذکار، جلد 4، صفحہ318، دار الكتب العلمية)
جن روایات میں بعض صحابہ مثل عبد اللہ بن عمر وغیرہ یا تابعین رحمہم اللہ تعالی کے حوالے سے یہ منقول ہے کہ وہ اپنی داڑھی کے عرض سے بال کاٹتے تھے تو ان تمام کا بھی وہی محمل ہے جو اوپر مذکور ہوا نیز ان تمام آثار کو ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالی ان کا درست محمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فكان المعنى عنده وعند جمهور العلماء الأخذ من اللحية ما تطاير
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور جمہور علماء کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ داڑھی کے جو بال (حد واجب سے زائد) لٹکتے ہوں انہیں کاٹنا جائز ہے۔ (الاستذکار، جلد 4، صفحہ318، دار الكتب العلمية)
فتاوی رضویہ میں ہے: ’’حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وحضرت عبداللہ بن عمر وحضرت ابو ہریرہ وغیرہما صحابہ وتابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے افعال واقوال اور ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ومحرر مذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما وعامہ کتب فقہ وحدیث کی تصریح سے اس کی حد یکمشت ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ655، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی غرائب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ کان ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما یقول للحلاق بلغ العظٰمین فانھما منتھی اللحیۃ یعنی حدھا ولذٰلک سمیت لحیۃ لان حدھا اللحی‘‘
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما حجام سے فرمایا کرتے تھے کہ دو ہڈیوں تک پہنچ جا، کیونکہ وہ دونوں داڑھی کی حدود یعنی آخری حصہ ہیں اسی لئے داڑھی کو لحیہ کہاگیا ہے کیونکہ اس کی حدود جبڑے (اللحی) تک ہیں۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 22، صفحہ 596، رضا فاونڈیشن، لاہور )
سیدی اعلیٰ حضرت نے جد الممتار میں قرۃ العین میں موجود داڑھی کی تعریف کو اظہر قرار دیا، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’والاظہر ما فی قرۃ العین شرح فتح المعین من قولہ ( لحیۃ : ھی اسم ما نبت علی الذقن وھو مجتمع اللحیین وعذار: وھو ما نبت علی العظم المحاذی للاذن وعا رض: وھو ماانحط عنہ الی اللحیۃ‘‘
ترجمہ: (داڑھی کی ) اظہر تعریف وہ ہے جو قرۃ العین شرح فتح المعین میں ہے مصنف فرماتے ہیں: داڑھی وہ بال ہیں جو ٹھوڑی پر اگتے ہیں اور ٹھوڑی دونوں جبڑوں کے ملنے کی جگہ ہے اور عذار(پر اگتے ہیں): (عذار یعنی ) کانوں کے محاذی ہڈی پر اگتے ہیں اور عارض ( پر اگتے ہیں ): (عارض وہ ہے) جو عذار سے جبڑوں کی طرف نیچے کو آتا ہے۔ (جد الممتا ر جلد1، صفحہ 329، مکتبۃ المدینہ)
داڑھی کی حد کو مزید وضاحت سے بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے اس کی تین قسمیں بیان کیں، چنانچہ جد الممتار میں لکھتے ہیں:
’’و بالجملہ قسموا اللحیۃ الی ثلاثۃ اقسام مبدأھا ما علی الخدین محاذی الاذنین من تحت الصدغین و منتھا ھا ما علی الذقن و خصوھا باسم اللحیۃ والاول عذار وما بینھما علیٰ الخدین عارض والکل لحیۃ‘‘
ترجمہ: خلاصہ کلام یہ کہ فقہا ئے کرام نے داڑھی کو تین حصوں میں تقسیم کیا ، داڑھی کی ابتدا کنپٹی کے نیچے کانوں کے محاذی گال کے حصے سے ہو تی ہے اور اس کی انتہا ٹھوڑی ہے، فقہا ئے کرام نے اسے ( یعنی کنپٹی کے نیچے سے ٹھوڑی تک کو ) داڑھی کا نام دیا ہے، پہلاحصہ عذار کہلاتا ہے اور جو ان (عذار اورٹھوڑی )کے درمیان گال کے حصے پر ہے وہ عارض ہے اور یہ تمام داڑھی کہلائے گی۔ (جد الممتا ر جلد1، صفحہ 329، مکتبۃ المدینہ)
اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا: داڑھی کا ارسال تابہ یکمشت تو معلوم ہے مگر اس کے حدو د کہاں تک ہیں یعنی چہرہ پر کل بال خواہ آنکھوں تک کیوں نہ ہوں داخل ریش ہیں یا کہاں تک اور خط بنوانے میں کہاں تک احتیاط مناسب ہے؟
اس سوال سے سائل کا مقصود ہی یہ ہے کہ داڑھی جس کو ایک مشت مکمل رکھنا واجب ہے وہ کونسے بال ہیں؟ تو اس کے جواب میں اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے داڑھی کے طول و عرض دونوں کو بیان فرمایا، جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ طول و عرض دونوں میں داڑھی کی حد شرعی ایک مشت واجب ہے، چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی پر جمتی ہے اور عرضا اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ میں ہوتا ہے جس طرح بعض لوگوں کے کانوں پر رونگٹے ہوتے ہیں وہ داڑھی سے خارج ہیں، یوں ہی گالوں پر جو خفیف بال کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک نکلتے ہیں وہ بھی داڑھی میں داخل نہیں یہ بال قدرتی طور پر موئے ریش سے جدا ممتاز ہوتے ہیں اس کا مسلسل راستہ جو قلموں کے نیچے سے ایک مخروطی شکل پر جانب ذقن جاتا ہے یہ بال اس راہ سے جداہوتے ہیں نہ ان میں موئے محاسن کے مثل قوت نامیہ ان کے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 22، صفحہ 596، رضا فاونڈیشن، لاہور )
امام اہلسنت رحمہ اللہ تعالی کا یہ فرمان اس بارے میں صریح ہے کہ داڑھی کو طولا و عرضا دونوں طرح ایک مشت رکھنا واجب ہے۔
در مختار میں ہے:
’’وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم‘‘
ترجمہ: بہر حال داڑھی ایک مشت سے کم کرنا جیسا کہ بعض مغربی اور ہجڑے کرتے ہیں، اسے کسی نے مباح نہیں سمجھا اور مکمل صاف کرادینا یہودِ ہند اور عجمی مجوس کا فعل ہے۔ ( الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ418، دار الفكر)
ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانے کے حوالے سے فقہائے کرام کے دو طرح کے اقوال ہیں کہ بعض فقہاء علیہم الرحمہ نے مطلقا داڑھی کے اطراف سے بال کاٹنے کو جائز لکھا اور اکثر نے "اذا طالت" کی قید لگائی، جن فقہائے کرام نے" اذا طالت" کی قید نہ لگائی اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ داڑھی کے اطراف سے طولا یا عرضا بالکل جتنا چاہے کاٹ سکتے ہیں بلکہ جب ایک مشت رکھنا واجب ہے تو ان کے فرامین کا مطلب بھی وہی ہے کہ جب داڑھی ایک مشت سے لمبی ہو جائے تو اب اس کے اطراف سے کاٹ سکتے ہیں جیسا کہ اکثر فقہائے کرام علیہم الرحمہ کی "اذا طالت" کی قید سے واضح ہوتا ہے۔
نیز عبارات فقہاء میں اطراف اللحیۃ کے الفاظ ہیں اور یہ واضح ہے کہ طرف کا لفظ عرض (چوڑائی)کیلئے متعین نہیں بلکہ طرف مطلقا کسی چیز کے کنارے کو کہتے ہیں خواہ وہ طول میں ہو یا عرض میں۔ علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’ولا بأس بنتف الشيب وأخذ أطراف اللحية إذا طالت‘‘
ترجمہ: سفید بال اکھیڑنے اور داڑھی جب لمبی ہو جائے (یعنی: ایک مشت سے زائد ہو جائے ) تو اس کے کناروں سے بال کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔ (البنایہ، جلد 4، صفحہ73، دار الكتب العلمية)
در مختار میں علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ نے اطراف لحیہ سے بال کاٹنے کو مطلقا بلا قید" اذا طالت" کے لکھا، لیکن اس کے ساتھ ہی مقدار واجب کی وضاحت بھی کردی جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’ولا بأس بنتف الشيب أخذ أطراف الليحة والسنة فيها القبضة‘‘
ترجمہ: سفید بال اور داڑھی کے اطراف سے بال کاٹنے میں حرج نہیں۔ اور داڑھی میں مسنون (یعنی: سنت سے ثابت) مقدار ایک مشت ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 664، دار الكتب العلمية)
نیز اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’وفي شرح الشيخ إسماعيل لا بأس بأن يقبض على لحيته، فإذا زاد على قبضته شيء جزه كما في المنية، وهو سنة كما في المبتغى وفي المجتبى والينابيع وغيرهما لا بأس بأخذ أطراف اللحية إذا طالت‘‘
یعنی: شرحِ شیخ اسماعیل میں ہے کہ داڑھی کو پکڑ کر دیکھے، قبضہ سے جو بال زیادہ ہو اسے کاٹ دے، ایسا ہی منیہ میں ہے۔ اور ایک مشت سنت ہے جیسا کہ مبتغی میں ہے اور مجتبی و ینابیع وغیرہ میں ہے کہ جب داڑھی لمبی ہو جائے تو اس کے کناروں سے بال کاٹنے میں حرج نہیں۔ ( رد المحتار، جلد 2، صفحہ418، دار الفكر)
حاصل کلام یہ ہے کہ بیان کردہ تصریحات محدثین و فقہاء سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ داڑھی کو طولا و عرضا حد شرعی سے کم کرنا شرعا ناجائز و گناہ ہے اور کسی حدیث و اثر یا فقہی جزئیے سے عرض میں داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنے کا ثبوت نہیں ہے۔
اب یہاں در مختار کی عبارت (والسنة فيها القبضة)سے کسی کے ذہن میں یہ اشکال نہ آئے کہ ایک مشت تو سنت ہے، ناکہ واجب، اس لئے ہم نے قوسین میں مسنون کا معنی واضح کردیا کہ مسنون سے مراد یہ ہے کہ جو چیز سنت سے ثابت ہو، تو اس سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی جیسا کہ شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے اشعۃ اللمعات میں تصریح فرمائی، چنانچہ فتاوی فیض الرسول میں اشعۃ اللمعات جلد اول کے حوالے سے مذکور ہے: محدث کبیر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حلق کردن لحیہ حرام ست و روش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں راقلندریہ گویند و گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است‘‘ و آنکہ راسنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک دردین ست یابجہت آں کہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند… یعنی: داڑھی منڈانا حرام ہے انگریزوں، ہندؤں اور قلندریوں کا طریقہ ہے اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہا نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا (تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا) تو سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے یا اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ نماز عید کو مسنون فرمایا (حالانکہ نماز عید واجب ہے)۔ (فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ261، مطبوعہ لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-529
تاریخ اجراء: 03 رمضان المبارک1446ھ/04 مارچ2025ء