اوپر چڑھتے اللہ اکبر اور نیچے اترتے سبحان اللہ پڑھنا سنت ہے؟

اوپر نیچے جاتے ہوئے تکبیر و تسبیح سفر کے ساتھ خاص ہے ؟ نیز اس میں حکمت کیا ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بلندی پر چڑھتے ہوئے تکبیر اور پستی کی جانب اترتے ہوئے تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ اس کے متعلق احادیث میں جو روایت ہے اس کا تعلق تو سفر کے ساتھ ہے۔ کیا یہ سنت سفر سے ہی مخصوص ہے یا عام حالات میں بھی اسی طرح تکبیر و تسبیح پڑھنا سنت ہی ہے، نیز بلندی کے لیے تکبیر اور پستی کے لیے تسبیح کو بطورِ دعا مقرر کرنے کے پیچھے کیا حکمت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بلندی کی طرف جاتے ہوئے ”اللہ اکبر“ اور پستی کی طرف اترتے ہوئے ”سبحان اللہ“           کہنا مسنون ہے۔ یہ سنت محض سفر سے مخصوص نہیں، بلکہ عام حالات میں بھی بلندی پر چڑھتے یا پستی کی طرف آتے تکبیر و تسبیح مسنون ہی ہے۔ محدثین کرام نے اِس تکبیر وتسبیح کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔اولاً حدیث، پھر حکمتیں اورآخر پر اِس دعا کے سفر سے مخصوص نہ ہونے پر عبارات نقل کی جائیں گی۔

بخاری شریف میں ہے:

”عن جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنهما قال: كنا إذا ‌صعدنا ‌كبرنا وإذا نزلنا سبحنا“

 ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے، تو الله اکبر کہتے اور جب کسی نشیب جگہ میں اترتے تو سبحان الله کہتے تھے۔ (صحیح البخاری، جلد04، ‌‌باب التسبيح إذا هبط واديا، صفحہ 57، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

دوسری روایت میں ہے:

”عن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنهما: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان ‌إذا ‌قفل من غزو أو حج أو عمرة يكبر على كل شرف من الأرض ثلاث تكبيرات“

ترجمہ:حضرت ابنِ عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم جب کسی غزوہ یا حج و عمرہ سے واپس ہوتے تو جب بھی کسی بلند جگہ پر چڑھتے، تو تین مرتبہ الله اکبر کہتے۔(صحیح البخاری، جلد03،  صفحہ 07، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

حکمتیں

شارحین نے جو حکمتیں بیان فرمائیں، اُنہیں بالترتیب نیچے بیان کیا جا رہا ہے۔

(1)جب انسان بلندی پر چڑھتا ہے تو اُس کے وجود میں رِفعت اور بلند ہونے کا احساس جاگتا ہے، لہذا اُس حالت میں یہ مناسب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو بیان کرے۔ یونہی جب پستی کی جانب جاتا ہے، تو اُس حالت میں اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور پاکی کو بیان کرے، کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پستی سے پاک ہے۔”الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري“ میں ہے:

”الحكم في ذلك أن الإنسان إذا علٰى مرتفعًا يرى في نفسه علوًا وارتفاعًا، فالملائم أن يذكر اللہ بكبريائه، وعكسه إذا سفل فيذكره بصفة التنزيه والتقديس“

 ترجمہ: اس معاملے میں حکمت یہ ہے کہ جب انسان کسی اونچی جگہ پر چڑھتا ہے تو اپنے اندر ایک بلندی اور رفعت محسوس کرتا ہے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اُس کی کبریائی کے ساتھ یاد کرے۔ اور اس کے برعکس، جب وہ نیچے اترے تو اللہ کو تنزیہ و تقدیس (یعنی پاکی اور ہر نقص سے مبرا ہونے) کی صفات سے یاد کرے۔ (الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري، جلد 6، صفحہ 18، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي)

اِس بات کو چند الفاظ کی تبدیلی سے دوبارہ یوں لکھا:

”قد أشرنا هناك إلى الحكمة في ذلك بأن الإنسان إذا كان على مكان عاليًا يرى نفسه شيئًا، فالمناسب أن يُقرَّ بأن اللہ أكبر وأجل من كل شيء، وإذا هبط يروي في نفسه سفلًا فاللَّائق أن يقدس اللہ من كل نقص“

 ترجمہ:ہم نے وہاں اس عمل کی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب انسان کسی بلند مقام پر ہوتا ہے تو اپنے آپ میں کچھ بڑائی محسوس کرتا ہے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ سب سے بڑا اور جلالت والا ہے۔ اور جب وہ نیچے اترتا ہے تو اپنے اندر ایک پستی (انکساری) محسوس کرتا ہے، لہٰذا اِس موقع پر بہتر یہ ہے کہ وہ ذاتِ الہی کی ہر نقص سے تقدیس بیان کرے۔ (الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري، جلد 10، صفحہ 104، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي)

(2)انسان کی اپنی بلندی اُس کے وجود میں خالق کی عظمت وکبریائی کی یاد پیدا کرتی ہے، چنانچہ تکبیر کا حکم ہوا۔”حاشية السندي على سنن ابن ماجۃ“ میں ہے:

”(‌والتكبير ‌على ‌كل ‌شرف) أي: كل أرض مرتفعة فإن ارتفاع المخلوق يُذَكِّر بارتفاع الخالق“

 ترجمہ: اور ہر اونچی جگہ پر تکبیر کہی جائے، کیونکہ مخلوق کی بلندی خالق کی بلندی کی یاد دلاتی ہے۔ (حاشية السندي على سنن ابن ماجۃ، جلد 2، صفحہ 176، مطبوعہ دار الجیل، بیروت)

(3)بلند مقامات پر تکبیر کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جب بھی حالت و وقت بدلے، تو اس وقت یادِ الہی مستحب ہے، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ جب بلند مقام کی طرف بڑھے، تو حالت تبدیل ہونے پر اُس نئی حالت یعنی بلندی کے موافق تکبیرِ الہی بیان کرے۔”شرح المشكاة للطيبي“ میں ہے:

”وجه التكبيرات علي ‌الأماكن ‌العالية، وهو استحباب الذكر عند تجديد الأحوال، والتقلب في التارات، وكان صلى الله عليه وسلم يراعي ذلك في الزمان والمكان؛ لأن ذكر اللہ تعالي ينبغي أن لا ينسى في كل الأحوال“

ترجمہ:بلند مقامات پر تکبیرات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ احوال کے بدلنے اور مختلف اوقات و حالات میں تغیر کے وقت ذکرِ الٰہی مستحب ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان (دونوں اعتبار سے) اس بات کا خیال رکھتے تھے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کسی بھی حال میں فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ (شرح المشكاة للطيبي، جلد 6، صفحہ 1896، مطبوعہ مكتبة نزار)

(4)جب انسان بلندی کی طرف بڑھتا ہے تو دل میں ایک احساسِ برتری پیدا ہونے ہونے کا احتمال ہے۔ اس لیے شریعت نے تلقین کی کہ ایسے موقع پر تکبیر کہہ کر انسان اللہ کی کبریائی کو یاد کرے اور یہ تسلیم کرے کہ شان و مرتبہ کی حقیقی بلندی صرف اللہ کے لیے ہے۔”طرح التثريب في شرح التقريب“ میں ہے:

”قال والدي رحمه اللہ في شرح الترمذي: ‌مناسبة ‌التكبير ‌على ‌المكان ‌المرتفع أن الاستعلاء والارتفاع محبوب للنفوس وفيه ظهور وغلبة على من هو دونه في المكان فينبغي لمن تلبس به أن يذكر عند ذلك كبرياء اللہ تعالى وأنه أكبر من كل شيء ويشكر له ذلك؛ يستمطر بذلك المزيد“

 ترجمہ: میرے والد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح ترمذی میں فرمایا: بلند مقام پر تکبیر کہنے کی مناسبت یہ ہے کہ بلندی اور اونچائی انسانی وجود کو پسند ہوتی ہے اور اِس بلندی میں اُس شخص پر ظاہری برتری اور غلبہ ہوتا ہے، جو مقام میں اُس سے نیچے ہو۔ لہٰذا جو شخص اس (بلندی کی کیفیت) سے دوچار ہو، اسے چاہیے کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو یاد کرے اور یہ یقین رکھے کہ وہ ہر شے سے بڑا ہے، اور اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اس شکر کے ذریعے مزید فضل و کرم کی بارش طلب کرے۔ (طرح التثريب في شرح التقريب، جلد 5، صفحہ 185، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي)

پستی کی طرف اترتے ہوئے تسبیح میں حکمت یہ ہے کہ بلندی کی وسعت کے مقابلے میں پستی نسبتا ”تنگی“ کی جگہ ہوتی ہے تو وہاں تسبیح کا پڑھنا مفید ہے کہ تسبیح کشادگی پیدا کرتی ہے، چنانچہ اِسی کتاب میں ہے:

    يحتمل أن يكون سبب التسبيح في الانهباط أن الانخفاض محل الضيق والتسبيح سبب للفرج ومنه قوله تعالى في حق يونس عليه السلام {فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ} [الصافات: 143] {لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ} [الصافات: 144] وكانت مقالته عليه السلام في بطن الحوت { سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ } [الأنبياء: 87]۔“

ترجمہ: نیچے اترتے وقت تسبیح کہنے کا ایک ممکنہ سبب یہ ہے کہ پستی (عموماً) تنگی کی جگہ ہوتی ہے، اور تسبیح کشادگی کا سبب بنتی ہے۔ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کا حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے:

{فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ} (الصافات: 143) {لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ} (الصافات: 144)

اور مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس علیہ السلام کی پکار یہ تھی: {سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ} (الأنبياء: 87) ’’(اے اللہ!) تو ہرعیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا۔“(طرح التثريب في شرح التقريب، جلد 5، صفحہ 186، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي)

(5) ایک حکمت یہ ہے کہ بلندی پر چڑھنا تھکاوٹ کا سبب ہے تو سفر میں بلندی پر چڑھنے والے کو تکبیر پڑھنی چاہیے، کیونکہ تکبیر شیطان کو دور کرتی ہے اور سفر کی مشقت و تکلیف کو کم کر دیتی ہےکہ سفر تو ہے ہی مشقت کا نام۔”السراج المنير شرح الجامع الصغير“ میں ہے:

”قال العلقمي يستحب للمسافر كلما علا شَرَفاً أن يكبر فإن التكبير يطرد عنه الشيطان من كل باب ويطفي عنه نار السفر الذي هو قطعة من العذاب“

 ترجمہ: امام علقمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: مسافر کے لیے مستحب ہے کہ جب بھی وہ کسی بلند مقام پر چڑھے تو تکبیر کہے، کیونکہ تکبیر اس سے شیطان کو بھگا دیتی ہے اور اس سے سفر کی تکلیف دور کر دیتی ہے، جو کہ عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔(السراج المنير شرح الجامع الصغير، جلد 2، صفحہ 200، مطبوعة مركز النخب العلمية )

(6)نیچے اترتے وقت تسبیح کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے، چاہے کوئی بلند مقام پر ہو یا نچلے مقام پر۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم وقدرت سے بلندی اور پستی دونوں کو محیط ہے، لیکن وہ پستی سے منزہ ہے، لہٰذا جب کوئی نیچے اترے تو وہ اللہ کی پاکی بیان کرے اور اس سے ہر ایسی نسبت کی نفی کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔”الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية“ میں ہے:

”قال القونوي ومعنى التسبيح عند الهبوط أنه سبحانه قال {وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ} وكما هو فوق الفوق فهو فوق التحت ولا يوصف بالتحت وعلمه محيط بالفوق والتحت فإذا هبط في مكان نزه البارئ عنه بقوله سبحان اللہ أي عما لا يوصف به من التحت وهو سبحانه معه بإحاطته به وبجميع الموجودات“

ترجمہ:امام قونوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: نیچے اترتے وقت تسبیح کہنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: {وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ} اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو‘‘ (الحدید: 4)۔ اور جس طرح وہ تمام بلندیوں سے اپنی شان کے مطابق بلند ہے، اسی طرح وہ پستی (کی کیفیت) سے بھی ماوراء ہے، (یعنی پستی اس کی شان کے لائق نہیں) اور اسے پستی سے متصف نہیں کیا جاتا، جبکہ اس کا علم بلندی اور پستی ہر جگہ کو محیط ہے۔ پس جب کوئی شخص کسی نچلی جگہ پر اترے تو  ’’سبحان اللہ‘‘             کہہ کر خالقِ کائنات کو اس (مقامِ پستی کی نامناسب نسبت) سے پاک قرار دے، یعنی ہر اس چیز سے پاک قرار دے، جس سے اُس کی ذات کو متصف نہیں کیا جا سکتا، مثلاً پستی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے اس بندے اور تمام موجودات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔(الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية، جلد 5، صفحہ 139، مطبوعہ جمعية النشر والتأليف الأزهرية )

بلندی و پستی پر تکبیر و تسبیح پڑھنا سفر سے مخصوص نہیں:

بلند مقام پر چڑھتے ہوئے نبی اکرم ﷺ تکبیر پڑھا کرتے تھے اور یہ سنت صرف قافلے یا سفر کی حالت سے خاص نہیں تھی، چنانچہ ”لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح“ میں ہے:

”فالتكبير على الشرف سنة مستمرة في كل حال غير مقيد بحال القفول

 ترجمہ: بلند مقام پر تکبیر کہنا مستمر، جاری اور ہر بلندی کی حالت میں سنت ہے، صرف سفر سے واپسی کے وقت کے ساتھ مقید نہیں۔(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، جلد 5، صفحہ 218، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

اور یہی بات تکبیر وتسبیح کی حکمتوں سے بھی واضح ہوتی ہے کہ مثلا تکبیر و تسبیح کے پیچھے ایک حکمت ”تجددِ احوال“ میں ذکر الہی ہے اور یہ تجدد محض سفر میں نہیں ہوتا، بلکہ اپنے گھر میں بلندی پر چڑھتے اور پستی میں اترتے ہوئے بھی ہوتا ہے، لہذا گھر میں بھی تکبیر وتسبیح کا حکم ہو گا، نیز خود نبی اکرم ﷺ ہر بدلتے لمحے اور تجدد احوال میں ذکر الہی کا اہتمام فرماتے تھے، لہذا اِسے سفر سے مخصوص نہیں سمجھنا چاہیے، چنانچہ ”لمعات التنقیح“ میں ہی مزید وضاحت سے علامہ تورپشتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے لکھا:

”قال التُّورِبِشْتِي: وجه التكبير في ‌الأماكن ‌العالية هو استحباب الذكر عند تجدد الأحوال والتقلب فيها، وكان صلى الله عليه وسلم يراعي ذلك في الزمان والمكان، وذلك لأن اختلاف أحوال العبد في الصباح والمساء والصعود والهبوط وما أشبه ذلك مما لا ينبغي أن ينسى ربه عند ذلك؛ فإنه هو المتصرف في الأشياء، والمقلب للأحوال بقدرته، والمدبر لها بجميل صنعه، انتهى“

 ترجمہ: علامہ تورپشتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: بلند مقامات پر تکبیر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ احوال کے بدلنے اور ان میں تغیر آنے کے وقت ذکرِ الٰہی مستحب ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ زمان و مکان (دونوں اعتبار سے) اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ اور یہ اہتمام اِس لیے تھا کہ بندے کے احوال کا بدلنا، صبح و شام، چڑھنا اور اترنا، اور اسی طرح کے دیگر مواقع پر، اسے اپنے رب کی یاد کو فراموش نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہی تمام اشیاء میں تصرف کرنے والا، اپنی قدرت سے حالات کو بدلنے والا، اور اپنی خوبصورت کاریگری سے ان کی تدبیر کرنے والا ہے۔(لمعات التنقيح، جلد 5، صفحہ 218، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

شارحینِ حدیث نے کسی بھی مقام پر یہ تخصیص نہیں کی کہ جب سفر ہو تو اُسی میں یوں تکبیر وتسبیح پڑھی جائے اور حضر میں نہیں، بلکہ مطلقاً لکھا کہ جو بھی ”متلبس بہ“ یعنی اِس حالتِ صعود ونزول میں آئے، تو اُسے تکبیر پڑھنی چاہیے، خواہ یہ کیفیت گھر میں ہو یا سفر میں۔”الشمائل الشریفۃ“ میں ہے:

”قال الطيبي وجه التكبير على الأماكن العالية هو ندب الذكر عند تجديد الأحوال والتقلبات وكان المصطفى صلى اللہ عليه وسلم يراعى ذلك في الزمان والمكان اهـ وقال الحافظ العراقي مناسبة التكبير على المرتفع أن الاستعلاء محبوب للنفس وفيه ظهور وغلبة فينبغي للمتلبس به أن يذكر عنده أن اللہ أكبر من كل شيء

ترجمہ: علامہ طیبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: بلند مقامات پر تکبیر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ احوال کے بدلنے اور تغیرات کے وقت ذکرِ الٰہی مستحب ہے۔ نبی اکرم ﷺ زمان ومکان (دونوں اعتبار سے) اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ حافظ عراقی نے فرمایا: بلند مقام پر تکبیر کہنے کی مناسبت یہ ہے کہ ”بلندی“ نفس کو پسند ہے اور اس میں دوسروں پر ظاہری برتری اور غلبہ ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص اس کیفیت سے دوچار ہو، اسے چاہیے کہ اُس وقت یہ یاد کرے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ (الشمائل الشريفة للسیوطی، صفحۃ 191، مطبوعہ دار العلم، جدة)

بلا تقییدِ سفر، مطلقاً اِسی انداز میں ”فیض القدیر “ اور ” شرح الزرقاني على الموطأ “ میں بھی بیان کیا گیا۔

بلکہ یہاں ایک نہایت دلچسپ بات ہے اور وہ یہ کہ نماز، سفر میں پڑھیں یا گھر میں، ہر جگہ حالتِ قیام اور یونہی اوپر کی طرف اٹھتے ہوئے تکبیر مشروع کی گئی اور ”انہباط“ یعنی رکوع وسجود میں تسبیح مقرر کی گئی۔ یہ طریقہ بھی سفرو غیر سفر میں مطلقا بلندی و پستی پر چڑھتے اترتے کی تکبیرات و تسبیحات کے مشابہ ہے، چنانچہ ابو داؤد شریف میں اس چیز کو یوں بیان کیا گیا:

”كان النبي صلى اللہ عليه وسلم وجيوشه إذا علوا الثنايا كبروا، وإذا هبطوا سبحوا، ‌فوُضعت ‌الصلاة على ذلك“

 ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر جب پہاڑی راستوں پر چڑھتے تو تکبیر کہتے، اور جب نیچے اترتے تو تسبیح کہتے، پس نماز میں بھی یہی طریقہ متعین کر دیا گیا۔ (سنن ابی داؤد، جلد4، صفحہ 240، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

اس روایت کے تحت علامہ ابنِ رسلان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:

”أي: التكبير في حالة القيام والارتفاع، والتسبيح في حال الانهباط وهو السجود والركوع“

 ترجمہ: یعنی قیام اور بلندی کی حالت میں تکبیر کہنا اور پستی یعنی سجدہ اور رکوع کی حالت میں تسبیح کہنا۔ (شرح سنن أبي داود لابن رسلان، جلد 11، صفحہ 307، مطبوعہ دار الفلاح)

مزید لکھا:

”وكذلك الساجد والراكع في الصلاة فإنه في غاية ما يكون من الانهباط إذا وضع جبهته على الأرض فينزه اللہ عن ذلك ويسبح اللہ في السجود والركوع“

 ترجمہ: اور اسی طرح نماز میں سجدہ کرنے والا اور رکوع کرنے والا، جب وہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتا ہے تو وہ انتہائی پستی کی حالت میں ہوتا ہے، پس وہ اللہ کو اس (پستی کی نسبت) سے پاک قرار دیتا ہے اور سجدے اور رکوع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔                               (شرح سنن أبي داود لابن رسلان، جلد 11، صفحہ 308، مطبوعہ دار الفلاح)

”مسند الدارمی“ میں ایک حدیث مبارک منقول ہوئی جس میں حضرت کعب الاحبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے سوال ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تورات شریف میں کیا تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے، تو آپ نے اِس سوال کے جواب میں امتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بھی شان بیان کی اور مطلقاً فرمایا کہ وہ ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے ”اللہ اکبر“ کہنے والے ہوں گے۔ یعنی آپ نے ”کل شَرَف“ کا جملہ استعمال فرمایا، یعنی یہ نہیں فرمایا کہ صرف دورانِ سفر ہر بلندی پر تکبیر کہیں گے، بلکہ مطلقاً ہر طرح کی بلندی خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، وہ تکبیرِ الہی کہا کریں گے، چنانچہ ”مسند الدارمی“ میں ہے:

”عن ابن عباس رضي اللہ عنهما، أنه سأل كعب الأحبار: كيف تجد نعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في التوراة؟ فقال كعب:«نجده محمد بن عبد اللہ يولد بمكة، ويهاجر إلى طابة، ويكون ملكه بالشام وليس بفحاش، ولا صخاب في الأسواق، ولا يكافئ بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، أمته الحمادون، يحمدون اللہ في كل سراء، ويكبرون اللہ على كل نجد

ترجمہ:حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت کعب الاحباررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے سوال کیا: آپ تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کیسی پاتے ہیں؟ تو حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: ’’ہم انہیں محمد بن عبداللہ کے نام سے پاتے ہیں، جو مکہ میں پیدا ہوں گے، اور طابہ (مدینہ) کی طرف ہجرت کریں گے اور ان کی بادشاہت شام میں ہوگی۔ وہ نہ تو بدکلام ہوں گے، نہ بازاروں میں شور مچانے والے، اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے، بلکہ معاف کریں گے اور بخش دیں گے۔ ان کی امت حمد کرنے والی ہوگی، ہر خوشی میں اللہ کی حمد کرے گی، اور ہر اونچائی پر اللہ کی کبریائی بیان کرے گی۔ (مسند الدارمی، جلد 1، صفحہ 158، مطبوعہ دار المغنی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9327

تاریخ اجراء: 11  ذو القعدۃ الحرام 1446ھ / 09 مئی 2025ء