حضور ﷺ کون سا سرمہ لگاتے تھے اور سنت طریقہ کیا ہے؟

حضور علیہ الصلاۃ والسلام کون سا سرمہ لگاتے تھے؟ اور سرمہ لگانے کا سنت طریقہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

آپ صلی اللّٰہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کون سا سرمہ لگاتے تھے، نیز سرمہ لگانے کا سنت طریقہ کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حدیث شریف میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ”اِثْمِد“ سرمہ استعمال کرنے کا ذکر ہے اور حدیث پاک میں اسی کو بہترین سرمہ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا: تمام سُرموں میں بہترین سُرمہ ”اِثْمِد“ ہے کہ یہ نگاہ کو روشن کرتا اور پلکیں اُگاتا ہے۔ "لیکن یادرہے کہ پتّھر کا سُرمہ اِسْتِعْمال کرنے میں بھی حَرَج نہیں۔

سرمہ لگانے کا شرعی حکم: یہ ہے کہ مرد کا زینت کے ارادے سے کالا سرمہ یا کاجل لگانا مکروہ یعنی ناپسندیدہ عمل ہے اور زینت مقصود نہ ہو، تو حرج نہیں، اورلگانے میں بہتر یہ ہےکہ سوتے وقت سرمہ لگایا جائے کہ سوتے وقت سرمہ لگانا سنت ہے۔

سرمہ لگانے کا طریقہ:

سُرمہ اِسْتِعْمال کرنے کے تین طریقے منقول ہیں: (1) کبھی دونوں آنکھوں میں تین تین سَلائیاں (2) کبھی دائیں (یعنی سیدھی) آنکھ میں تین اور بائیں (یعنی اُلٹی) میں دو (3) تو کبھی دونوں آنکھوں میں دو دو اور پھر آخِر میں ایک سَلائی کو سُرمے والی کر کے اُسی کو باری باری دونوں آنکھوں میں لگائیے۔ اس طرح کر نے سے ان شاء اللہ عزوجل تینوں طریقوں پر عمل ہوتا رہے گا۔

تکریم کے جتنے بھی کام ہوتے، سب ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم سیدھی جانب سے شرو ع فرماتے، لہٰذا پہلے سیدھی آنکھ میں سُرمہ لگائیے پھر اُلٹی آنکھ میں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ”اِثْمِد“ سرمہ استعمال فرمایا، چنانچہ شرح السنہ میں ہے

عن ابن عباس، قال: كان النبي صلى اللہ عليه و سلم يكتحل قبل أن ينام بالإثمد، ثلاثا في كل عين

 ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سونے سے پہلے اثمد سرمہ لگاتے تھے ،ہر آنکھ میں تین سلائیاں۔(شرح السنۃ، جلد12، صفحہ117، حدیث:3203، المكتب الإسلامي، بيروت)

تمام سُرموں میں بہترین سُرمہ ”اِثْمِد“ ہے، چنانچہ سنن ترمذی میں ہے

عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: خير ما اكتحلتم به الاثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر وكان لرسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم مكحلة يكتحل بها عند النوم ثلاثا في كل عين

ترجمہ: حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو سرمہ تم لگاؤ ان میں بہترین اِثْمِدْ سرمہ ہے، کیونکہ یہ نگاہ کو روشن کرتا اور پلکیں اُگا تا ہےاور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم کی ایک سرمہ دانی تھی جس میں سےسوتے وقت ہر آنکھ میں تین سلائیاں لگاتے تھے۔ (سنن الترمذی، جلد 4، صفحہ 388، حدیث: 2048، مطبوعہ: مصر)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم كان إذا اكتحل يجعل في العين اليمنى ثلاثة مراود، و في اليسرى مرودين يجعله وترا

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرمہ لگاتے تو اپنی دائیں آنکھ میں تین سلائیاں لگاتے اور اپنی بائیں آنکھ میں دو سلائیاں لگا کر، ان کی تعداد کو طاق رکھتے۔ (شعب الایمان، جلد 8، صفحہ 811، حدیث: 6011، مطبوعہ: ریاض)

شعب الایمان میں ہے

عن محمد بن سيرين قال: سألت أنسا عن كحل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم؟ قال: كان يكتحل في اليمنى اثنتين، وفي اليسرى اثنتين، وواحدة بينهما.

 ترجمہ: امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، فرمایا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمہ لگانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں آنکھ میں دو بار سرمہ لگاتے اور بائیں آنکھ میں دو بار سرمہ لگاتے پھر ایک ہی بار میں ان دونوں آنکھوں میں سرمہ لگاتے۔ (شعب الایمان، جلد 8، صفحہ 409، 410، حدیث: 6009، مطبوعہ: ریاض)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتےہیں ”یعنی (نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) رات کو سوتے وقت سرمہ لگاتے تھے، دوپہر میں سوتے وقت نہیں، سنت یہ ہی ہے کہ رات کو سوتے وقت سرمہ لگائے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6، ص 180، ضياء القرآن، لاھور)

مرد کے لیے زینت کے ارادے سے سرمہ لگانا مکروہ ہونے کے متعلق علامہ برہان الدین محمود بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

اتفق المشايخ على أنه لا بأس بالاثمد للرجل، و اتفقوا على أنه يكره الكحل الأسود إذا قصد به الزينة، و اختلفوا فيما إذ لم يقصد به الزينة عامتهم على أنه لا يكره

 ترجمہ: مشائخ کااس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کے اثمد سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اوراس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرد کو زینت کے قصد سے کالا سرمہ(یا کاجل) لگانامکروہ ہےاور جب زینت کا قصد نہ ہو، تو اس بارے میں اختلاف ہے ، البتہ اکثر کے نزدیک مکروہ نہیں۔ (المحیط البرھانی، جلد 5، صفحہ 377، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”پتھر کا سرمہ استعمال کرنے میں حرج نہیں اور سیاہ سرمہ یا کاجل بقصدِ زینت مرد کو لگانا مکروہ ہے اور زینت مقصود نہ ہو تو کراہت نہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 597، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4327

تاریخ اجراء: 21 ربیع الآخر 1447ھ / 15 اکتوبر 2025ء