
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کھانا کھاتے وقت اگر ہاتھ سے لقمہ چھوٹ کر نیچے گر پڑے، تو اس کا کیا کیا جائے؟ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اس حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جب کھانے کے دوران ہاتھ سے چھوٹ کر کوئی لقمہ وغیرہ دسترخوان پر یا زمین پر گرجائے تو اس کو اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی، کنکر یا غبار وغیرہ کو صاف کرلیا جائے پھر اس کو کھالیا جائے، اس کو بلا وجہ ایسے ہی نہ چھوڑ دیا جائے، کیونکہ بلا وجہ اس کو چھوڑدینے کو حدیث پاک میں ”شیطان کے لئے چھوڑنا“ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شارحین کرام علیہم الرحمۃ نے فرمایا کہ اس طرح بلاوجہ لقمہ کو چھوڑدینا، ایک طرح سے نعمت الٰہی کو ضائع کرنا اور اس کو حقیر سمجھنا اور گرے ہوئے لقمہ کو اٹھانے میں کسر شان سمجھنا ہے جو کہ شیطانی کام یعنی تکبر سے ہے۔
یہاں یاد رہے کہ گرے ہوئے لقمہ کو ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق کھالینا ایک مستحب و باعث ثواب امر ہے، یہ لازم نہیں ہے کہ اس لقمہ کو تناول ہی کیا جائے، اس سلسلے میں علمائے کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر یہ اس لقمہ کو نہیں کھاتا تو کسی جانور کو کھلادے، الغرض ضائع نہ ہونے دے، لہٰذا اگر کسی دعوت وغیرہ کھانے کے دوران ایسا کوئی معاملہ واقع ہو اور وہاں حاضرین میں اس طرح لقمہ اٹھاکر کھانے میں عوام کے متنفر ہونے یا گھن کھانے کا اندیشہ صحیح ہو تو اس صورت میں جانور کو کھلانے والی صورت پر عمل کرنا بہتر ہے، کیونکہ جب اس لقمہ کو جانور کو کھلایا جائے گا تو اس طرح نہ ہی اسراف ہوگا اور نہ ہی تنفر عوام کا سبب ہوگا کہ عرف میں اس طرح لقمہ صاف کرکے کسی جانور کو کھلا دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ایسے بندے کو رزق کی قدر کرنے والا کہتے ہیں۔
گرے ہوئے لقمہ کو اٹھاکر کھانے سے متعلق مسند امام احمد، سنن الترمذی اور صحیح مسلم وغیرہ کتب حدیث میں ہے،
و اللفظ لصحیح مسلم: عن جابر، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: «إذا وقعت لقمة أحدكم فليأخذها، فليمط ما كان بها من أذى وليأكلها، و لا يدعها للشيطان
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی سے کوئی لقمہ گرجائے تو اس کو چاہئے کہ اس کو اٹھائے، اس پر لگنے والی تکلیف دہ چیز کو دور کرے اور اس کو کھالے اور اس کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ (صحیح مسلم، جلد 03، صفحہ 1606، حدیث: 2033، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
شرح المصابيح لابن ملک میں ہے
(و لا يَدَعْها) أي: لا يترك اللُّقمةَ الساقطةَ (للشيطان)، تركها له: كناية عن تضييع النعمة و الاستحقارِ بها، و التخلُّق بأخلاقِ المتكبرين على رفْعهِا و تناولهِا، و هذا من عمل الشيطان
ترجمہ: اور اسے یعنی گرے ہوئے لقمہ کو شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ اسے شیطان کے لیے چھوڑ دینا دراصل نعمت کو ضائع کرنے، اس کو حقیر سمجھنےاور گِرے ہوئے لقمے کو اٹھانے اور کھانے سے تکبر کرنے والوں کے اخلاق اپنانے سے کنایہ ہے، اور یہ سب شیطان کے عمل میں سے ہے۔ (شرح المصابیح لابن ملک، جلد 04، صفحہ 541، إدارة الثقافة الإسلامية)
گرے ہوئے لقمہ کو صاف کرکے خودکھا لینا مستحب ہے، چنانچہ امام مسلم علیہ الرحمۃ نے اوپر ذکر کردہ حدیث پر جو باب باندھا ہے، اس کا نام ہے
باب استحباب لعق الأصابع و القصعة و أكل اللقمة الساقطة بعد مسح ما يصيبها من أذى
یعنی: یہ باب ہے کھانے کے بعد انگلیوں اور برتن کو چاٹنے کے مستحب ہونے کے بارے میں اور اس بارے میں کہ گرے ہوئے لقمے سے تکلیف دہ چیز کو صا ف کرکے اس کو کھالینا مستحب ہے۔ (صحیح مسلم، جلد 03، صفحہ 1605، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
امام نووی علیہ الرحمۃ ذکر کردہ حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد و مسائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و استحباب أكل اللقمة الساقطة بعد مسح أذى يصيبها هذا إذا لم تقع على موضع نجس فإن وقعت على موضع نجس تنجست و لا بد من غسلها إن أمكن فإن تعذر أطعمها حيوانا و لا يتركها للشيطان
ترجمہ: (اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ) گرے ہوئے لقمے سے تکلیف دہ چیز کو صاف کر کے اس کو کھالینا مستحب ہے، یہ اس وقت ہے جبکہ وہ کسی نجس جگہ پر نہ گرا ہو، پس اگر کسی ناپاک جگہ گرا تو وہ ناپاک ہوجائے گا اور ممکن ہو تو اس کو دھونا ضروری ہے اور اگر دھونا متعذر ہو تو کسی جانور کو کھلادے اور شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ (شرح النووی علی مسلم، جلد 13، صفحہ 203، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
نہ ہی خود کھانا اور نہ دوسرے کو کھلانا بلکہ بالکل ہی اس طرح بلا وجہ چھوڑ دینا کہ کسی کے منہ نہ لگے، یہ اسراف ہے، چنانچہ علامہ عبد الرحمن شیخی زادہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
و من السرف۔۔۔ ترك اللقمة الساقطة من المائدة
ترجمہ: اور دسترخوان سے گرے ہوئے لقمہ کو چھوڑ دینا اسراف میں سے ہے۔ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، جلد 02، صفحہ 525، دار إحياء التراث العربي)
بہار شریعت میں ہے ”کھانے کے آداب و سنن یہ ہیں۔۔۔ (۱۹) ہاتھ سے لقمہ چھوٹ کر دسترخوان پر گر گیا اسے چھوڑ دینا اسراف ہے بلکہ پہلے اس کو اٹھاکر کھائے۔“ (بہار شریعت، جلد 03، حصہ 16، صفحہ 377، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ گرے ہوئے لقمہ کے ضائع ہونے اور اسراف سے بچنے کے لئے دو طریقے ہیں: ایک ہے اس کو صاف کرکے خود کھالینا، اس طریقے میں اسراف سے بچت بھی ہے اور استحباب پر عمل بھی کہ خود کھانا مستحب ہے، دوسرا طریقہ ہے اس کو کسی جانور کو کھلادینا، اس میں اسراف سے بچت ہے لیکن استحباب پر عمل نہیں، لیکن کسی خاص موقع پر تنفر عوام سے بچنے کے لئے دوسرے طریقے کو اختیار کیا جائے کہ جانور کو کھلادینے کی صورت میں اسراف نہیں بلکہ یہ غرض صحیح ہے۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے ”پس ان امور میں ضابطہ کلیہ واجبۃ الحفظ یہ ہے کہ فعل فرائض وترک محرمات کو ارضائے خلق پر مقدم رکھے اور ان امور میں کسی کی مطلقاً پروا نہ کرے اور اتیان مستحب و ترک غیر اولٰی پر مدارات خلق و مراعات قلوب کو اہم جانے اور فتنہ ونفرت وایذا ووحشت کا باعث ہونے سے بہت بچے۔ اسی طرح جو عادات ورسوم خلق میں جاری ہوں اور شرع مطہر سے اُن کی حُرمت وشناعت نہ ثابت ہو اُن میں اپنے ترفع و تنزہ کے لئے خلاف و جُدائی نہ کرے کہ یہ سب امور ایتلاف وموانست کے معارض اور مراد و محبوب شارع کے مناقض ہیں ہاں وہاں ہوشیار وگوش دار کہ یہ وہ نکتہ جمیلہ وحکمتِ جلیلہ وکُوچہ سلامت وجادہ کرامت ہے جس سے بہت زاہدان خشک واہلِ تکشف غافل وجاہل ہوتے ہیں وہ اپنے زعم میں محتاط ودین پرور بنتے ہیں اور فی الواقع مغز حکمت ومقصود شریعت سے دور پڑتے ہیں خبردار ومحکم گیر یہ چند سطروں میں علم غزیر و باللّٰہ التوفیق و الیہ المصیر۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 04، صفحہ 528، رضا فاونڈیشن، لاہور)
جانور کو کھلادیا جائے تو اسراف نہیں کہلائے گا، چنانچہ مسئلہ اسراف الماء پر تحقیق کرتے ہوئے امام اہل سنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”تحقق اسراف و حصول ممانعت اضاعت پر موقوف ہے تو اس صورت میں دیکھنا ہوگا کہ پانی ضائع ہوا یا نہیں، اگر ہوا مثلا زمین پر بہہ گیا اور کسی مصرف میں کام نہ آیا تو ضرور اسراف و ناروا ہے۔۔۔ باقی رہی ایک شکل کہ زیادت ہو تو بلاوجہ مگر پانی ضائع نہ ہو، مثلا بلا وجہ محض چوتھی بار پانی اس طرح ڈالے کہ نہر میں گرے یا کسی پیڑ کے تھالے میں جس کو پانی کی حاجت ہے یا کسی برتن میں جس کا پانی اسپ و گاؤ وغیرہ جانوروں کو پلایا جائے گا۔۔۔ اور انہیں کے مثل دوسری اغراض صحیحہ جن کے سبب پانی ضائع نہ جائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 01، حصہ دوم، صفحہ 989، 990، رضا فاونڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4133
تاریخ اجراء: 26 صفر المظفر 1447ھ / 21 اگست 2025ء