
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ کیا سلام کرنا افضل ہے یا سلام کا جواب دینا افضل ہے؟ زید کا کہنا ہے سلام کرنا سنت ہے، جبکہ جواب دینا واجب ہے اورفرض سنت ونفل سے افضل ہوتا ہے، لہذا جواب دینا سلام کرنے سے افضل ہے، تو کیا زید کا یہ کہنا درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سلام کرنا سنت اور اس کا جواب دینا واجب ہے، لیکن سلام کرنا افضل ہے، جس کا ثبوت احادیث نبویہ اور اقوالِ فقہاء میں موجود ہے۔ رہی زید کی یہ بات کہ فرض سنت سے افضل ہوتا ہے، لہذا جواب دینا واجب ہونے کے اعتبار سے سلام کرنے کی سنت سے افضل ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصول تو یہی ہے کہ فرض سنت سے افضل ہوتا ہے، لیکن یہ اصول مطلق نہیں ہے، بلکہ فقہائے کرام نے چند وجوہات کی بنا پر کچھ مسائل کو اِس اصول سے مستثنی قرار دیاہے، ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ جب سنت فرض کی ادائیگی کا سبب بنے یعنی سنت کی وجہ سے فرض ادا ہوتا ہو، تو ایسی صورت میں سنت کا ثواب فرض سے بڑھ جاتا ہے، جیسے سلام میں پہل کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے، تو سلام کرنے والا جواب دینے کا سبب بنا، اگر سلام کرنے والا سلام نہ کرتا، تو جواب واجب نہ ہوتا، تو ابتداء بالسلام جواب دینے کے وجوب کا سبب بنا، لہذا سلام کرنے کا ثواب زیادہ ہوا۔
سلام میں ابتداء کرنے والے کو ایک درجہ فضیلت ملنے کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ، الادب المفرد، المعجم الکبیر، الجامع الصغیر، جامع الاحادیث، کنزالعمال اور جمع الجوامع کی حدیث پاک ہے:
واللفظ للاول:”عن عبد الله، قال: إن الرجل إذا مر بالقوم فسلم عليهم، فردوا عليه كان له فضل درجة عليهم، لأنه أذكرهم السلام“
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: جب کوئی شخص کسی قوم کے پاس سے گزرے، انہیں سلام کرئے، وہ قوم اسے جواب دے، تو سلام کرنے والے کو ایک درجہ فضیلت حاصل ہو گی، کیونکہ اس نے ان کو سلام(کا جواب) یاد دلایا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد05، باب فی الذی یبدا بالسلام، صفحہ 249، مطبوعہ ریاض)
سلام میں ابتداء کرنے والے کو دس نیکیوں سے فضیلت حاصل ہونے کے متعلق الجامع الصغیر، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند ابن ابی شیبہ، میزان الاعتدال، جامع الاحادیث، کنزالعمال اور جمع الجوامع کی حدیث پاک میں ہے:
واللفظ للاول: ”من سلم على قوم فقد فضلهم بعشر حسنات وإن ردوا عليه“
ترجمہ: جس نے کسی قوم پر سلام کیا، تو اسے قوم پر دس نیکیوں سے فضیلت حاصل ہوگی، اگرچہ وہ سلام کا جواب دے دیں۔ (مسند ابن ابی شیبہ، جلد02، صفحہ 50، مطبوعہ ریاض)
سلام میں پہل کرنے والے کو نوے نیکیاں ملنے کے متعلق شعب الایمان، مجمع الزوائد، کشف الاستار عن زوائد البزاز، مسند الفاروق اور مسند البزاز میں ہے:
واللفظ للآخر: عن عمر بن الخطاب يقول قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:”إذا التقى الرجلان المسلمان فسلم أحدهما على صاحبه فإن أحبهما إلى الله أحسنهما بشرا بصاحبه، فإذا تصافحا نزلت عليهما مائة رحمة، للبادي منهما تسعون وللمصافح عشرة“
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان ملتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے، تو ان میں سے جو اپنے صاحب کے ساتھ زیادہ خوش روئی اور اچھے انداز سے پیش آتا ہے، ان دونوں میں سے وہ اللہ کا زیادہ محبوب ہوتا ہے، پھر جب وہ دونوں مصافحہ کرتے ہیں، تو اللہ تعالی ان پر سو (100) رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ان میں سے نوے (90) اس کے لیے ہوتی ہیں، جو(سلام اور مصافحہ میں ) ابتدا کرتا ہے اورجس سے مصافحہ کیا گیا اس کے لیے دس (10) رحمتیں ہوتی ہیں۔ (مسند البزاز، جلد01، صفحہ 437، مطبوعہ المدينة المنورة)
اصول سے چند مسائل کا استثناء بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:
’’الفرض افضل من النفل الافی مسائل الاولی: ابراء المعسرمندوب، أفضل من انظارہ الواجب، الثانیۃ: الابتداء سنۃ افضل من ردہ الواجب، الثالثۃ: الوضؤ قبل الوقت مندوب، أفضل من الوضؤبعدالوقت وھوالفرض‘‘
ترجمہ: فرض نفل سے افضل ہوتاہے، سوائے چندمسائل کے: پہلایہ کہ تنگ دست مقروض کومہلت دیناواجب ہے اوراس کا قرض معاف کردینا مستحب ہے اوریہ واجب سے افضل ہے، دوسرایہ کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے اور پہلے سلام کرنا سنت ہے اور یہ واجب سے افضل ہے، تیسرایہ کہ وقت کے بعد وضو کرنا فرض ہےاوروقت سے پہلے وضوکرنا مستحب ہے اور یہ فرض سے افضل ہے۔ (ا لاشباہ والنظائر، صفحہ154، مطبوعہ کراچی)
علامہ ملاعلی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:
’’الفرض افضل من النفل درجۃ الافی مسائل: الاولی ابراء المعسرمندوب وھوافضل من أنظارہ الواجب، الثانیۃ ابتداء السلام افضل من جوابہ، الثالثۃ الوضؤ قبل الوقت مندوب افضل من الوضؤبعددخول الوقت وھوفرض۔‘‘
ترجمہ: فرض نفل سے ستردرجہ زیادہ افضل ہوتاہے، لیکن چندمسائل میں نفل فرض سے افضل ہوتے ہیں۔پہلایہ کہ تنگ دست مقروض کو مہلت دینا واجب ہے اور اس کا قرض معاف کردینا مستحب ہے اور یہ واجب سے افضل ہے، دوسرا یہ کہ پہلے سلام کرناجواب دینے سے افضل ہے، تیسرا یہ کہ وقت کے داخل ہونے کے بعد وضو کرنا فرض ہے اور وقت سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے اور یہ فرض سے افضل ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب الافلاس والانظار، جلد06، صفحہ104، مطبوعہ کوئٹہ)
ابتداء بالسلام کے افضل ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے شمس الائمہ، امام سرخسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:
”حدثني أبي عن جدي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما من رجل يسلم على قوم إلا فضلهم بعشر حسنات وإن ردوا وفيه دليل على أن البداية بالسلام أفضل وأن ثواب المبتدئ به أكثر لأن الجواب يبتنى على السلام والبادئ بالسلام هو المسبب للجواب وهو البادئ بالإحسان والراد يجازى إحسانه بالإحسان“
ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”جوبھی لوگوں کی جماعت کو سلام کرے، تو وہ ان لوگوں پر دس نیکیوں سے فضیلت لے جاتا ہے، اگرچہ وہ سلام کا جواب دیں“، اس حدیث پاک میں دلیل ہے کہ سلام میں ابتدا کرنا افضل ہے اور یہ کہ سلام میں پہل کرنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے، کیونکہ جواب کی بنیاد سلام کرنے پر ہی ہوتی ہے، اور سلام میں پہل کرنے والا ہی اس کےجواب کا سبب بنتا ہے (یعنی اس کو سلام کا جواب دینے کا موقع، سلام میں پہل کرنے والا ہی دیتا ہے)اور یہی احسان کرنے میں ابتدا کرنے والا ہے اورسلام کا جواب دینے والا تو(جواب دے کر )احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرتا ہے۔ (شرح السير الكبير، صفحہ141، مطبوعہ الشركة الشرقية للإعلانات)
محیط برہانی، ردالمختار اور فتاوی ہندیہ میں ہے:
واللفظ للآخر: ”واختلفوا في أيهما أفضل أجرا قال بعضهم: الراد أفضل أجرا، وقال بعضهم: المسلم أفضل أجرا، كذا في المحيط“
ترجمہ: فقہائے کرام کااس میں اختلاف ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا افضل ہے یا جواب دینے والا، بعض نے کہا کہ جواب دینے والا ثواب کے اعتبار سے افضل ہے اور بعض نے کہا کہ سلام میں پہل کرنے والا ثواب کے اعتبار سے افضل ہے، اسی طرح محیط میں ہے۔ (الفتاوى الهنديہ، كتاب الكراهيہ، الباب السابع، جلد05، صفحہ 324، دار الفكر، بيروت)
مذکورہ عبارت کے تحت
”وقال بعضهم: المسلم أفضل أجرا “
(اور بعض نے کہا کہ سلام میں پہل کرنے والا ثواب کے اعتبار سے افضل ہے) امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں: ”وعليه الحديث“ یعنی اسی بات پرحدیث بھی بیان ہوئی ہے (کہ سلام میں پہل کرنے والا افضل ہے)۔ (التعليقات الرضويہ على الفتاوى الهنديہ، صفحہ679، مقولۃ 1659، مکتبۃ اشاعۃ الاسلام، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar- 9026
تاریخ اجراء:01صفر1445 ھ/07اگست2024ء