روزمرہ کی کھانے، سونے وغیرہ کی دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا

روز مرہ کی عام پڑھی جانے والی دعاؤں میں ہاتھ اٹھائیں گے؟

مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-476     

تاریخ اجراء:13جمادی الثانی1446ھ/14 دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں   کہ(1) بعض دعائیں جو ہم مختلف مواقع پر پڑھتے ہیں جیسے کھانے سے پہلے اور بعد کی دعا۔ اسی طرح سونے سے پہلے اور بعد کی دعا وغیرہ  ان  میں دعا والا معنی تو نہیں ہوتا تو ان کو دعا کیوں کہتے ہیں؟

    (2) کیا ان کو پڑھتے ہوئے  ہاتھ  اٹھائے جائیں گے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)یہ دعائیں حقیقت کے اعتبار سے تو اذکار ہیں ، لیکن  ان میں حمد کا معنی پایا جاتا ہے اور علما نے اس بات کی صراحت کی ہے  کہ ہر حمد دعا ہے اور یہ بات احادیث سے بھی ثابت ہے اس لیے ان کو دعا کہا جاتا ہے۔

   (2)جہاں تک رہا ان دعاؤں میں ہاتھوں کو بلند کرنا تو   ہاتھ بلند کرنا ممنوع تو نہیں ہے  ، لیکن سنت مبارکہ سے ثابت نہیں ہے ،البتہ ان اذکار و ادعیہ میں ہاتھوں کو اٹھانا منع  بھی نہیں کہ احادیث میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کو مطلقا بیان کیا گیا ہے، لہٰذا فی نفسہٖ ہردعا میں ہاتھ اٹھانے کا  جواز موجود ہے ،  ہاں موقع و محل کا خیال رکھنا مناسب ہے کہ  جہاں موقع مناسب ہو ہاتھ بلند کیے جاسکتے ہیں اور جہاں موقع مناسب نہ ہو وہاں ہاتھ بلند نہ کیے جائیں ۔

   والتفصيل ذالك:

   ہر حمد وثناء بلکہ مطلقا ہر ذکر   دعا کے    معنی میں اس لیے ہوتے ہیں کہ دعا میں دو باتیں ہوتی ہیں  : (۱)اللہ کریم  کا ذکر(۲)اللہ کریم سے اپنی حاجت طلب کرنا،اور حمد وذکر میں پہلی بات تو واضح طور پر موجود ہے، جبکہ دوسری بات یوں کہ جب کوئی بندہ  اللہ پاک کی کسی نعمت پر اس کی  حمد کرتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے تو وہ گویا اس سے مزید  نعمت طلب کر رہا ہوتا ہے، اسی لیے حمد  وذکر کو دعا کہا جاتا ہے۔

   سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

    ’’أفضل الدعاء الحمد لله‘‘

    ترجمہ: الحمد للہ افضل دعا ہے ۔ (جامع الترمذی ج5 ص 562 رقم 3383 وحسنہ، طبع قاھرہ)( سنن ابن ماجہ ج 4ص 711 رقم 3800 طبع الرسالہ)(المستدرک علی الصحیحین ج 1 ص 676 رقم 1834 وقال: هذا حديث صحيح الإسناد )

   حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:

   ( وأفضل الدعاء: الحمد لله): لأن الدعاء عبارة عن ذكر اللہ، وأن يطلب منه حاجته، والحمد للہ يشملهما فإن من حمد اللہ يحمده على نعمته، والحمد على النعمة طلب المزيد وهو رأس الشكر“

   ترجمہ:”دعا اللہ کے ذکر اور اس سے اپنی حاجت طلب کرنے کا نام ہے۔اور "الحمد للہ "میں یہ دونوں باتیں  پائی جاتی ہیں ۔کیونکہ جو اللہ کی حمد کرےگا وہ اس کی نعمت کی بھی تعریف کرتا ہےاور اللہ کی نعمت کی تعریف کرنا،رب کے مزید فضل کو طلب کرنا ہےاور یہی شکر کی اصل ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد03،صفحہ1598،دارالفکر،بیروت)

   الشیخ حسین بن محمد المظہری الحنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں

   ’’ لأن الدعاء عبارة عن أن يذكر العبدُ ربَّه ويطلبَ منه شيئًا، وكلا المعنيين موجودٌ في قول الرجل: (الحمد لله)، فإنَّ من قال: (الحمد لله) فقد دعا الله وطلب منه الزيادة؛ لقوله تعالى: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ‘‘

   ترجمہ: کیونکہ دعا اس بات سے  عبارت  ہے کہ  بندہ اپنے رب کا ذکر کرے اور اس سے کچھ طلب کرے اور یہ دونوں معنی بندے کے الحمد للہ کہنے میں موجود ہیں کیونکہ جو شخص الحمد للہ کہے گا تو بلاشبہ اس نے اللہ سے دعا کی اور اس سے زیادتی طلب کی ،اللہ پاک کے اس فرمان کی وجہ سے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں ضرور ضرور تم کو اور زیادہ دوں گا ۔(المفاتیح شرح المصابیح جلد 3 صفحہ 164 طبع دار النوادر بیروت)

   علامہ  شرف الدین حسین بن عبد اللہ الطیبی رحمہ اللہ تعالی شرح المشکاۃ میں  فرماتے ہیں:جعل أفضل الدعاء من حيث أنه دعاء لطيف يدق مسلكه ‘‘  ترجمہ :اس کو افضل ترین دعا قرار دیا اس وجہ سے کہ یہ ایسی لطیف دعا ہے جس کا راستہ نہایت باریک ہے۔(الکاشف عن حقائق السنن جلد 6 صفحہ 1825 مطبوعہ بیروت)

   بعض علماء نے اس کو یوں تعبیر کیا ہے کہ جب کوئی ادنیٰ شخص اپنے سے اعلیٰ کے دروازے پر کھڑا ہو کر اس کی تعریف کرے ، اس کا اچھے انداز میں ذکر کرے ، تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ تعریف کرنے والا ممدوح سے کچھ مانگ رہا ہے ، یوں ہی جب ہم رب کی حمد و ثناء کرتے ہیں ، اس کا ذکر کرتے ہیں ، تو اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم رب سے اس کے فضل کا سوال کر رہے ہیں ۔

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”جب مسکین سخی کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس کی تعریف کرنے لگے تو سمجھو کچھ مانگ رہا ہے ،یوں ہی جب ہم فقیر رب کریم کے دروازے پر اس کی حمدوثنا کریں تو در پردہ اس سے مانگتے ہی ہیں۔“(مراٰۃ المناجیح،جلد03،صفحہ343،نعیمی کتب خانہ)

   حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’إن الثناء دعا‘‘ ترجمہ: بیشک ثناء دعا ہے۔(التمھید لابن عبد البر ، جلد 6  ، صفحہ 47  ، طبع مغرب)

   امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی سند سے سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں

’’إن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بيديه‘‘

   ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور اپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرتے تھے ۔(الدعوات الکبیر جلد 3 صفحہ 421 رقم 310 طبع الغراس کویت)

   اس حدیث کی شرح   کرتے ہوئے حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں  :

   ’’قال الطیبي : دل الحديث على أنه إذا لم يرفع يديه في الدعاء لم يمسح بهما وهو قيد حسن؛ لأنه صلى اللہ عليه وسلم كان يدعو كثيراً كما هو في الصلاة والطواف وغيرهما من الدعوات المأثورة دبر الصلوات وعند النوم وبعد الأكل وأمثال ذلك ولم يرفع يديه ولم يمسح بهما وجهه‘‘

   ترجمہ:حدیثِ پاک اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں اُس میں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا نہیں جائے گا اوریہ اچھی قید ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی دعائیں ایسی مانگتے تھے جیسے نماز و طواف میں اور اِن کے علاوہ  نمازوں کے بعد ،سونے کے وقت اور کھانے کے بعد اور اسی طرح اور مقامات پر جو دعائے مأثورہ ہیں تو ان میں حضور علیہ السلام نہ ہاتھ اٹھاتے اور نہ ہاتھوں کو چہرے پر پھیرتے ۔(مرقاۃالمفاتیح، جلد4، صفحہ1536،بیروت)

   یہی بات علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مراقی الفلاح کے حاشیہ میں ارشاد فرمائی ہے ۔( حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ318،بیروت)

   مرأۃ المناجیح میں ہے:’’جن دعاؤں میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھاتے تھے ان میں ہاتھ منہ پر پھیر لیتے تھے اور جن میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے جیسے نماز،طواف،کھانے کے بعد کی دعائیں ان میں ہاتھ منہ پر بھی نہ پھیرتے تھے۔‘‘ (مرأۃ المناجیح،جلد3،صفحہ302،مطبوعہ گجرات)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’ اور بیچ حصن حصین کے ایک آداب دعامیں رفع یدین کو بسندِ حدیث تحریر کیا ہے۔۔اس سے خوب واضح ہو اکہ دعا مانگنا ساتھ رفع یدین کے چاہئے، البتہ خالی ہاتھ اٹھانا بغیر دُعا کے عبث اور بے فائدہ ہے اور یہ بھی واضح و لائح ہُوا کہ دعا مانگنا اور ہاتھ نہ اٹھانا ، آداب دعا سے دور ہونا ہے۔ ‘‘(فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ494،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   تعزیت کے وقت دعا میں ہاتھ اٹھانے کو اعلی حضرت علیہ الرحمۃ مطلق آدابِ دعا سےاستدلال کرتے ہوئے ارشاد  فرماتے ہیں:’’ہاتھ اٹھانا مطلقاً دعا کے آداب سے ہے۔ توا س وقت بھی کچھ مضائقہ نہیں رکھتا۔۔بالجملہ قولِ فیصل جس سے اختلاف زائل، اور توفیق حاصل ہو یہ ہے کہ نفس تعزیت و دعا و ایصال ثواب بیشک محمود ومندوب اور وقتِ دُعاہاتھ اٹھانا بھی جائز۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ400،394،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   کھانے کے بعد مجمع میں ہاتھ نہ اٹھانے سے متعلق مرأۃ المناجیح میں ہے:’’ہاں بعض علماء نے فرمایا کہ کھانے کے بعد جو دعا مانگی جاتی ہے اگر مجمع میں کھانا کھایا جائے تو اس دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے تاکہ ان لوگوں کو شرمندگی نہ ہو جو ابھی تک فارغ نہ ہوئے۔‘‘(مرأۃ المناجیح،جلد3،صفحہ298،مطبوعہ گجرات)

   اعلی حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’یونہی ہاتھ اٹھا نا دعا کے آداب سے ہونا بکثرت احادیث صحیحہ و معتبرہ قولی و فعلی و تقریری سے ثابت، یہ سب حدیثیں صحاح و مشکوۃ و اذکار و حصن حصین وغیرہا میں مروی و مذکور،اور بعد ثبوت اطلاق بے اثبات تخصیص ممانعت خاص قاعدہ علم سے دور و مہجور ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ،جلد29،صفحہ190،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم