کھانے کے بعد ٹشو سے ہاتھ صاف کرنا

کھانے کے بعد ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرنے کے متعلق تفصیل

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

بعض لوگ کھانے کے بعد صرف ٹشو پیپرسے ہاتھ صاف کرلیتے ہیں، کیا اس طرح کرنادرست ہے؟ کیا اس سے سنت ترک نہیں ہوگی؟ جو سنت طریقہ ہووہ ارشاد فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ٹشو سے ہاتھ صاف کرنا بھی جائز ہے مگر سنت نہیں ہے، سنت یہ ہے کہ کھانے کے بعد دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک دھویا جائے، فقہاء نے یہاں تک فرمایا کہ اگر کھانے کے بعد صرف ایک ہاتھ دھویا، یا صرف انگلیاں دھوئیں تو بھی سنت ادا نہیں ہو گی۔ احادیث کریمہ میں کھانا کھانے سے پہلےاور بعدمیں ہاتھ دھونے کے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ لہذا ان فضائل اور سنت پر عمل کا ثواب پانے کے لئے کھانے کے بعد دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک دھو نے کا معمول بنانا چاہیے، بلا عذر صرف ٹشو پیپر سے صاف کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ بعض احادیث میں جو آیا کہ صحابہ کرام اور آقاکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک موقع پر کھانے کےبعد کنکریوں کے ذریعے ہاتھ صاف کیے ، تویہ بیان سنت کے لئے نہیں بلکہ ایسا فرمانا کسی عذر مثلاً نمازمیں جلدی کی وجہ سے تھا یا بیان جواز (کہ ایساکرنا بھی جائز ہے) کےلئے تھا اور جن احادیث میں ہاتھ دھونے کا فرمایا وہ بیان سنت کے لئے ہیں۔

جزئیات بالترتیب درج ذیل ہیں:

البحر الرائق میں ہے

و السنة أن يغسل الأيدي قبل الطعام و بعده

ترجمہ: سنت یہ ہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہاتھوں کو دھویا جائے۔ (البحر الرائق، جلد 8، صفحہ 208، کتاب الکراھیۃ، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

بہار شریعت میں ہے ”سنت یہ ہے کہ قبل طعام اور بعد طعام دونوں ہاتھ گٹوں تک دھوئے جائیں، بعض لوگ صرف ایک ہاتھ یا فقط انگلیاں دھولیتے ہیں بلکہ صرف چٹکی دھونے پر کفایت کرتے ہیں اس سے سنت ادا نہیں ہوتی۔ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 376، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

سنن ترمذی میں ہے، آقاکریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

برکۃ الطعام الوضوء قبلہ والوضوء بعدہ

ترجمہ: کھانے کی برکت اس میں ہے کہ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھویا جائے۔ (سنن ترمذی،ابواب الاطعمہ، جلد 3، صفحہ 425، حدیث: 1846، دار الغران الاسلامی، بیروت)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے

أتى رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم بخبز و لحم و هو في المسجد فأكل و أكلنا معه ثم قام فصلى و صلينا معه ولم نزد على أن مسحنا أيدينا بالحصباء

ترجمہ: آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم مسجد میں موجود تھے،آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی بارگاہ میں روٹی اور گوشت لایا گیا، تو آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے تناول فرمایا، ہم نے بھی آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ کھایا پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہوئے نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ نماز اداکی، ہم نے اپنے ہاتھوں کو صرف کنکریوں سے صاف کیا، اس سے زائد کچھ نہیں کیا (یعنی دھویا نہیں)۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الاطعمہ، جلد 2، صفحہ 1218، حدیث: 4213، المکتبۃ الاسلامی، بیروت)

مذکورہ حدیث کے تحت فاضل محقق علامہ ملا علی قاری مرقاۃالمفاتیح میں فرماتے ہیں:

استعجالا للصلاة، أو بيانا للجواز

یعنی: صرف کنکریوں سے ہاتھ صاف کرنا یا تو نماز میں جلدی کی وجہ سے تھا،یا بیان جواز کےلئے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ 2716، دار الفکر، بیروت)

اسی طرح مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمٰن مشکوٰۃ کی مذکورہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں: ”خیال رہے کہ یا تو نماز کی جلدی تھی یا بیان جواز کے لیے یہ عمل فرمایا۔ ورنہ کھانا کھا کر ہاتھ دھونا، کلی کرنا سنت ہے۔ لہذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں جن میں کھانے کے بعد ہاتھ دھونے،کلی کرنے کا حکم ہے کہ وہ بیان سنت کے لیے ہے اور یہ حدیث بیان جواز کے لیے۔" (مرآۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 35، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4022

تاریخ اجراء: 19 محرم الحرام 1447ھ / 15 جولائی 2025ء