
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9114
تاریخ اجراء:23 ربیع الاول 1446 ھ/ 28 ستمبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں مساجد و مدارس انتظامیہ یا دیگر افراد کسی دینی کام کے لیے میٹنگ کرتے ہیں یا دنیاوی اداروں، کمپنیوں، فیکٹریوں میں اپنے روز مرّہ کے کاموں کے مشورے کے لیے ممبران و اراکین جمع ہوتے ہیں، تو اس دوران آنے والے افراد اور ممبران سلام کر رہے ہوتے ہیں، تو کیا یہ سلامِ تحیت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے؟ رہنمائی فرما دیجئے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہاں سلام کا جواب دینا واجب ہے اور کہاں نہیں تاکہ گناہ سے بچ سکیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانین شرعیہ کی رُو سے صرف اُسی سلام کا جواب دینا لازم ہوتا ہے،جو تحیت کے لیے ہو ( یعنی جب کوئی شخص خاص زیارت اورملاقات کے لیے ہی آیا ہو، کسی اَور کام کے لیے نہ آیا ہو)اور اگرتحیت مقصود نہ ہو،جیسا کہ بھیک مانگنے والاشخص یاقاضی کے پاس مقدمہ (Case)لے کر، یا کسی عالم دین اور مفتی صاحب کے پاس مسئلہ معلوم کرنے کےلیے آیا ہوا شخص سلام کرے، تو اس کے سلام کا جواب دینا لازم نہیں ہوتا، کیونکہ ان مقاصد کے لیے آنے والا فرد ملاقات اور ملنے کے لیے نہیں آتا، بلکہ اپنےکام کے لیے آتا ہے،اِس لیے یہ تحیت نہیں ہوگی، اِسی طرح جو افراد میٹنگ کے لیے جمع ہوں، خواہ دینی مشاورت ہویادنیوی،اس میں جو شخص شرکت کرنے کے لیے آیااور اس نے سلام کیا، تو یہ بھی سلامِ تحیت نہیں ہو گا، لہٰذااس کاجواب دینابھی شرعاًواجب نہیں کہ مقصود میٹنگ ہے، ملاقات و زیارت مقصود نہیں، البتہ ایسے موقع پر جب تک کوئی عذر نہ ہو سلام کا جواب دے دینا چاہیے تاکہ سامنے والا بدگمانی کا شکار نہ ہو اور اس کی دلجوئی بھی ہوجائے البتہ جب میٹنگ میں گفتگو جاری ہو تو آنے والے کو بھی چاہیے کہ ان کے کلام میں خلل نہ ڈالے۔
سلام زیارت و ملاقات کی تحیت ہے، جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’السلام تحية الزائرين والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح او لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم فليس هذا اوان السلام فلا يسلم عليهم ولهذا قالوا لو سلم عليهم الداخل وسعهم ان لا يجيبوه“ ترجمہ: سلام ملاقات کرنے والوں کی تحیت کے لئے ہوتا ہے اور جو لوگ مسجد میں تلاوت قرآن،تسبیحات یا نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں، وہ ملاقات کے لیے نہیں بیٹھے ہوتے، تو یہ سلام کا موقع نہیں، لہٰذا آنے والا شخص اِنہیں سلام نہ کرے، اِسی وجہ سے فقہاء نے فرمایا ہے کہ اگر آنے والے شخص نے اِن مذکورہ لوگوں کو سلام کیا، تو اِنہیں اختیار ہے کہ اس کا جواب نہ دیں۔(الفتاوی الھندیہ، کتاب الکراھیۃ، الباب السابع، جلد5، صفحہ325، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی طرح بہار شریعت میں ہے: ’’ سلام اس لیے ہے کہ ملاقات کرنے کو جو شخص آئے ، وہ سلام کرے کہ زائر اور ملاقات کرنے والے کی یہ تحیت ہے، لہٰذا جو شخص مسجد میں آیا اور حاضرین مسجد تلاوت قرآن و تسبیح ودرود میں مشغول ہیں یا انتظارِ نماز میں بیٹھے ہیں تو سلام نہ کرے کہ یہ سلام کا وقت نہیں۔ اسی واسطے فقہا یہ فرماتے ہیں کہ ان کو اختیار ہے کہ جواب دیں یا نہ دیں۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں اس لیے بیٹھا ہے کہ لوگ اس کے پاس ملاقات کو آئیں ، تو آنے والے سلام کریں۔‘‘(بھارِ شریعت، حصہ 16، جلد3، صفحہ 462، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اورجواب دینا صرف اسی سلام کا واجب ہے جو سلامِ تحیت یعنی وہ سلام جو ملاقات کا سلام ہو، لہٰذا تحیت کے علاوہ سلام کیا، تو وہ سلام کے محل میں نہیں ہوگا کہ حقیقتاً وہاں سلام نہیں،بلکہ کام مقصود ہے، لہٰذا اس سلام کا جواب دینا بھی لازم نہیں ہوگا، چنانچہ محیط برہانی میں ہے: ’’ان الرد جواب السلام والسلام انما یستحق الجواب اذا کان فی اوانہ،اما اذا کان فی غیر اوانہ فلا‘‘ ترجمہ:واپس سلام کہنا سلام کا جواب دینا ہے اور سلام،جواب دیے جانے کا اُسی وقت مستحق ہوتا ہے کہ جب یہ اپنے وقت (اور محل)میں ہو، اگر اپنے وقت میں نہ ہو، تو اس کا جواب دینا واجب نہیں۔(المحیط البرھانی، کتاب الاستحسان، جلد8، صفحہ 21، مطبوعہ ادارۃ القرآن، کراچی)
جن مواقع پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں،ان میں سے بعض کے متعلق رد المحتار اور دیگر کتبِ فقہیہ میں ہے: ”في شرح الشرعة : صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، و الأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أو ان الدرس، و سلام السائل، و المشتغل بقراءة القرآن، و الدعاء حال شغله، و الجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير“ ترجمہ: ”شرح الشرعہ“میں ہے کہ فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بعض مواقع پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، جیسا کہ قاضی کو جب فریقین سلام کریں، فقیہ استاد کہ جب اسے شاگرد یا کوئی اور شخص دورانِ درس سلام کرے، بھکاری کا سلام کرنا، قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول شخص کو سلام کرنا، دعا میں مشغول شخص کو سلام کرنا، مسجد میں تسبیح،قراءت یا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہوئے افراد کو ذکر و وعظ کے وقت سلام کرنا۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، جلد 21، صفحہ 376، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم