
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا 40 گز کا ایک مکان ہے جو کہ میں نے اپنےمیکے کی طرف سے ملنے والے سونے کو بیچ کر لیا ہے۔ اس مکان کو میں نے کرائے پر دیا ہوا ہے، جس کا کرایہ میں رکھتی ہوں، لیکن اس پر ہمارا گزر بسر موقوف نہیں،میں خود اپنے خاوند کےساتھ ان کےگھر میں رہتی ہوں۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس مکان کی وجہ سے مجھ پر حج فرض ہوگا یا نہیں؟ اس گھر کی مالیت تقریبا 25 لاکھ کے آس پاس بنتی ہے۔ نیز یہ بھی بتادیں کہ میرے شوہر کہتے ہیں:تم اپنا گھر بیچ کر مجھے دکان دلا دو، میں کاروبار کروں گا، ایسی صورت میں مجھ پر گھر بیچ کر شوہر کو دکان دلانا لازم ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بیان کردہ صورت میں جبکہ مکان کے کرائے پر آپ کا گزر بسر موقوف نہیں، ایسی صورت حال میں وہ مکان حاجت اصلیہ سے زائد شمار ہوگا، اور چونکہ اس کی مالیت تقریباً 25 لاکھ بنتی ہے جو بآسانی حج کے لئے آنے جانے، وہاں کھانے پینے، رہائش و دیگر ضروری اخراجات کے لئے کافی ہے،لہذا اس مکان کے سبب آپ پر دیگر شرائط کی موجودگی میں حج توفرض ہوجائے گا، لیکن اس کی ادائیگی اس وقت واجب ہوگی جب آپ کے شوہر یا محرم اپنے خرچے پر آپ کے ہمراہ حج پر جانے کو تیار ہوں،اور اگر شوہر یا محرم اپنے خرچے پر جانے کو تیار نہیں ہوتے، تو ایسی صورت میں ادئیگئ حج کے واجب ہونے کے لئے آپ کا ان کے اخراجات پر قادر ہونا بھی شرط ہے۔ بالفرض اگر آپ پوری زندگی شوہر یا محرم کے حج کے اخراجات پہ قادر نہیں ہوپاتیں، یا وہ بغیر اخراجات ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتے، توآپ پر واجب ہے کہ انتقال سے پہلے اپنی طرف سے حجِ بدل کروانے کی وصیت کر جائیں، اگر نہیں کریں گی تو گنہگار ہو گی۔
رہا یہ کہ آپ پر اپنا مکان بیچ کر شوہر کو دکان دلانا ضروری ہے یا نہیں؟ تو شرعاً یہ ضروری نہیں کیونکہ جو چیزیں خالصۃً عورت کی ملک ہوں، ان میں شوہر کا حق نہیں ہوتا، ہاں عورت اپنی رضا مندی سے دے دے تو اور بات ہے۔
کرائے پر دی ہوئی ایسی زمینیں جن کی آمدنی پرگزر بسر موقوف نہیں، فقہاء نے ایسی زمینوں کی وجہ سے حج کو لازم قرار دیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسے حاجت اصلیہ سے زائد شمار کیا گیا ہے، النتف فی الفتاوی جسے متن کی حیثیت حاصل ہے، میں ہے:
صاحب الضيعة، و تكون قيمة الضيعة مثل الزاد و الراحلة أو أكثر إلا أنه يحتاج إلى غلتها أو يحتاج عياله فليس عليه الحج۔ و لو أن غلة بعض الضيعة تكفيه و عياله و قيمة بعض الباقي يكفيه عن الزاد و الراحلة فإن عليه أن يحج
زمیندارکہ جس کی زمین کی قیمت حج کے زادِ راہ اور سواری جتنی یا اس سے زائد ہو، لیکن اسے یا اس کے عیال کو اس کی آمدن کی ضرور ت ہے، تو اس پر حج لازم نہیں ہے، اور اگر بعض زمین کی آمدنی اسے اور اس کے عیال کو کافی ہے، اور بقیہ زمین کی آمدنی زادِ راہ اور سواری کے لئے کافی ہے تو اس پر حج لازم ہوگا۔ (النتف فی الفتاوی، ص 131، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
بحر العمیق میں ہے:
و فی القنیۃ لہ ارض و عقار و کرم یستغلھا او حوانیت یستغلھا و یکفیہ و عیالہ فی السنۃ غلۃ بعضھا، و فی قیمۃ بقیۃ البعض الآخر وفاء بما یحج لزمہ الحج
قنیہ میں ہے:کسی کی ملک میں زمین، عقار (غیر منقولی جائداد)، انگور کے باغ یادکانیں ہوں،جن سے آمدنی ہوتی ہےاور بعض زمین کی آمدن اس کے او ر اس کے عیال کے اخراجات کو کافی ہے،جبکہ بعض دوسری جائیداد کی قیمت حج کے اخراجات کے لئے کافی ہے،تو اس پر حج لازم ہے۔ (البحر العمیق، ج 01، ص 385، مؤسسۃ الریان)
خرانۃ المفتیین،فتاوى ہندیہ، تتار خانیہ اور قاضی خان میں ہے،
و اللفظ لقاضی خان:”و إن كان صاحب ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد و الراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله، و أولاده و يبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج، و إلا فلا“
زمیندار جس کی کچھ زمینیں ایسی ہوں کہ جنہیں اگر وہ بیچ دے تو اس کی قیمت حج کےزادِ راہ، آنے جانے کی سواری اور اس کے عیال و اولاد کے اخراجات کو کافی ہوگی، اور اس کے بعد بھی اس کی کچھ زمین ایسی رہ جائے گی، جس کی آمدنی سے وہ زندگی گزار سکتا ہے، تو اس پر حج فرض ہے،ورنہ نہیں۔ (الفتاوی الخانیۃ، ج 01، ص 250، مطبوعہ کوئٹہ)
حج کے وجوبِ ادا کی شرائط بیان کرتےہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اُس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑھیا۔۔۔ محرم کے ساتھ جائے تو اس کا نفقہ عورت کے ذمہ ہے، لہٰذا اب یہ شرط ہے کہ اپنے اور اُس کے دونوں کے نفقہ پر قادر ہو۔“ (ملتقطا من بہار شریعت، ج 01، ص 1045، مکتبۃ المدینۃ کراچی)
وجوب ادا کی شرائط مفقود رہیں، تو موت سے پہلے وصیت کرنا واجب ہے۔ارشادالساری میں ہے:
اذا وجد فیہ شرائط الوجوب ولم یوجد شرائط الاداء فعلیہ الاحجاج فی الحال،او الایصاء فی المآل
جب شرائط وجوب تو پائے جائیں لیکن شرائط ِ ادا مفقود ہوں، تو اس پر فی الحال حج کرنا ورنہ بعد میں وصیت کرنا واجب ہے۔(ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری، ص 70، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
شرعا عورت کی ملک میں شوہر کا حق نہیں، موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
المرأة من أهل التصرف و لا حق لزوجها في مالها
ترجمہ: عورت تصرف کی اہل ہے اور اس کے مال میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، ج 17، ص 99، دار السلاسل – الكويت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0578
تاریخ اجراء: 29 ذو القعدۃ 1446ھ / 27 مئی 2025ء