
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس طرح چند شرائط کی موجودگی میں کوئی شخص اپنا حج بدل، کسی کو نائب بنا کر کروا سکتا ہے، اسی طرح کیا عمرہ یا نفلی حج بھی کوئی اپنی طرف سے دوسرے سے کروا سکتا ہے؟ اگر کروا سکتا ہے تو اس کی کیا شرائط ہیں؟ نیز یہ نفلی حج یا عمرہ، افعال ادا کرنے والے طرف سے ادا ہوگا اور بھیجنے والے کو صرف ثواب ملے گا؟ یا حج وعمرہ کی ادائیگی ہی بھیجنے والے کی طرف سے قرار پائے گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عمرہ یا نفلی حج میں بھی کسی کو اپنا نائب بنایا جاسکتا ہے اور اس کیلئے حج بدل والی شرائط میں سے کوئی بھی شرط ضروری نہیں ہے۔ نیزبھیجنے والے نے جب خرچہ اسی لئے دیا کہ میری طرف سے نفلی حج یا عمرہ کیا جائے تو اسی کی طرف سے ہی ادائیگی کی نیت کرنا ضروری ہوگا، ورنہ اس کے قول کی مخالفت لازم آئے گی اور خرچے کا تاوان بھی لازم آئے گا، جب بھیجنے والے کی طرف سے نفلی حج یا عمرہ کی نیت کی جائے گی تو ادائیگی بھی اسی بھیجنے والے کی طرف سے ہی ہوگی، افعال ادا کرنے والے کی طرف سےا دائیگی نہیں ہوگی۔
ترمذی و نسائی اور دیگر کتب حدیث میں ہے:
”و اللفظ للترمذی“عن ابی رزین العقیلی أنہ أتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم فقال: یارسول اللہ ،ان أبی شیخ کبیر لا یستطیع الحج و لا العمرۃ و لا الظعن، قال: حج عن ابیک و اعتمر۔ ھذا حدیث حسن صحیح، و انما ذکرت العمرۃ عن النبی فی ھذا الحدیث، ان یعتمر الرجل عن غیرہ۔
ترجمہ: حضرت ابورزین عقیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئے، عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم میرے والد بوڑھے ہیں حج اور عمرے کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی سواری پر بیٹھ سکتے ہیں، فرمایا: اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عمرے کا ذکرکیا گیا اس طرح کہ ایک شخص، دوسرے کی طرف سے عمرہ کرے۔ (سنن الترمذی صفحہ 483، مطبوعہ بیروت)
اس حدیث کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں فرمایا:
دل على جواز النيابة۔۔۔۔ إنما أمره بأن يحج ويعتمر عن أبيه وحجه واعتماره عن أبيه ليس بواجب، مع أن قول أبی رزين لا يستطيع الحج و لا العمرة يقتضی عدم وجوبها على أبيه، فيكون الأمر فی حديث أبی رزين للاستحباب
ترجمہ: حدیث کے یہ الفاظ، حج وعمرہ میں نائب بنانے کے جواز پر دلالت کرتے ہیں۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، حالانکہ اس کا حج اور عمرہ اپنے والد کی طرف سے کرنا ،واجب نہیں ہے ،اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابورزین رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ”میرے والد حج اور عمرہ کی استطاعت نہیں رکھتے“ تقاضا کرتا ہے کہ حج وعمرہ ،ان کے والد پر واجب نہیں تھا تو حدیث میں حضرت ابورزین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حکم دینا استحباب پر دلالت کرتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 5، صفحہ 439، مطبوعہ بیروت)
نفلی حج اگر کسی سے کروایا تو اس میں حج بدل والی شرائط ضروری نہیں ہیں۔رد المحتار میں ہے:
قد علمت مما قدمناہ عن اللباب أن الشروط کلھاشروط للحج الفرض دون النفل،فلایشترط فی النفل شیء منھا الا الاسلام و العقل و التمییز۔
ترجمہ: ہم نے لباب کے حوالے سے جو پیچھے بیان کیا اس سے تو نے جان لیا ہوگا کہ حج بدل کی تمام شرائط، فرض حج کیلئے ہیں، نفلی حج کیلئے نہیں ہیں، نفلی حج کروانے کیلئے صرف اسلام، عقل اور تمییز ضروری ہے۔ (رد المحتار جلد 4، صفحہ 20، مطبوعہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ”یہ شرطیں جو مذکور ہوئیں حجِ فرض میں ہیں، حجِ نفل ہو تو ان میں سے کوئی شرط نہیں۔“ (بہار شریعت جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1203، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
دوسرے کی طرف سے حج کریں تو اس کے حکم کے مطابق نیت بھی دوسرے کی طرف سے کرنا ضروری ہے۔ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:
(من حج عن غیرہ ینوی الحج عنہ)لأن الأعمال بالنیات ،والأصل أن کل عامل یعمل لنفسہ فلا بد من النیۃ لامتثال الأمر
ترجمہ: جس نے دوسرے کی طرف سے حج کیا تو وہ نیت بھی دوسرے کی طرف سے کرے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پرہےاور اصل یہ ہے کہ ہر عمل کرنے والا، اپنے لئے ہی عمل کرتا ہے، لہذا دوسرے کا حکم پورا کرنے کیلئے اسے دوسرے کی طرف سے نیت کرنا ضروری ہوگا۔ (الاختیارلتعلیل المختار جلد 2، صفحہ 217، مطبوعہ بیروت)
اگر بھیجنے والے کی طرف سے نیت نہیں کی، اپنی طرف سے کی تو تاوان لازم آتا ہے۔ ملتقی الابحر مع مجمع الانھر میں ہے ”(و ينوي النائب عنه) حتى لو نوى عن نفسه وقع عنه و ضمن النفقة“ترجمہ: نائب، بھیجنے والے کی طرف سے نیت کرے گا، اگر اس نے اپنی طرف سے نیت کی تو اس کی اپنی طرف سے ہی حج واقع ہوگا اور اس صورت میں وہ خرچے کا تاوان دے گا۔ (مجمع الانھر جلد 1، صفحہ 456، مطبوعہ بیروت)
نفلی حج میں بھی حج کی ادائیگی، محجوج عنہ (یعنی جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے، اس) کی طرف سے ہوتی ہے۔ البحر الرائق میں ہے:
و أشار المصنف بجريان النيابة فی الحج عند العجز فی الفرض، و مطلقا فی النفل أن أصل الحج يقع للآمر لحديث الخثعمية، و هی أسماء بنت عميس من المهاجرات، و هو أنهاقالت يا رسول اللہ ان فريضة اللہ فی الحج على عباده أدركت أبی شيخا كبيرا لا يثبت على الراحلة أفأحج عنه قال: نعم، متفق عليه فقد أطلق كونه عنه۔
ترجمہ: فرض حج میں عجز کے وقت اور نفلی حج میں مطلقا نیابت کے درست ہونے سے مصنف نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل حج کی ادائیگی ،حکم دینے والے کی طرف سے ہوتی ہے، اس کی دلیل خثعم قبیلے کی عورت والی حدیث ہے۔ یہ عورت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنھا مہاجرات میں سے تھیں، انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ نے بندوں پر جس حج کو فرض فرمایا ہے،وہ میرے والد کو اس حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے ،کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ فرمایا: ہاں۔ یہ متفق علیہ حدیث ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والد کی طرف سے حج ہوجانے کو مطلق ارشاد فرمایا ہے۔“ (البحر الرائق جلد 3، صفحہ 110، مطبوعہ بیروت)
اشکال: لباب المناسک اور اس کی شرح میں علامہ علی قاری رحمہ اللہ نےبھی اور دیگر بھی کئی کتب فقہ میں یہ بیان کیا ہے کہ نفلی حج بالاتفاق مامور(جس کو حج کیلئے بھیجا گیا، اس) کی طرف سے ادا ہوتا ہے، آمِر (بھیجنے والے) کی طرف سے ادا نہیں ہوگابلکہ آمر کو خرچ کا ثواب ملتا ہے کہ نفلی حج میں اصل مقصود ثواب پہنچانا ہے اور وہ آمر کو مل جاتا ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے:
(و فی حج النفل یقع عن المأمور اتفاقا) أی باتفاق مشائخنا، لأن الحدیث ورد فی الفرض دون النفل (و للآمر الثواب) أی ثواب النفقۃ۔ (المسلک التقسط فی المنسک المتوسط صفحہ 651، مطبوعہ مکۃ المکرمہ)
اشکال کا جواب: ہدایہ کی شرح غایۃ البیان میں امام قاضی قوام الدین امیرکاتب بن امیر عمراتقانی حنفی رحمہ اللہ نے اس اتفاق کے بیان کو خلاف روایت قرار دیا، انہیں امام اتقانی رحمہ اللہ سے یہ بات ردالمحتار میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کی اور اسے برقرار رکھا، انہیں امام اتقانی سے یہ بات علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی رحمہ اللہ نے بھی ہدایہ کی شرح البنایہ میں بیان کی اور اسے برقرار رکھا۔ نیز علامہ عابد سندھی رحمہ اللہ نے طوالع الانوار میں بھی اس اتفاق کو محل نظر قرار دیا اور علامہ مسکین رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ نقل کیا کہ چاہے حج فرض ہو یا نفل ،دونوں صورتوں میں ،آمِر یعنی بھیجنے والے کی طرف سے ہی ادائیگی ہوگی۔
غایۃ البیان میں ہے:
قال بعضھم فی شرحہ فی ھذا الموضع: الحج النفل یقع عن المأمور بالاتفاق وللآمر ثواب النفقۃ۔“ و ذلک خلاف الروایۃ ،ألا تری الی ما قال الحاکم الجلیل الشھید رحمہ اللہ تعالٰی فی مختصر الکافی: الحج التطوع عن الصحیح جائز۔ثم قال: واذا حج الصحیح عن نفسہ فھو تطوع۔ ثم قال: و فی الأصل تکون الحجۃ عن المحج۔
ترجمہ: بعض فقہاء نے اپنی شرح میں اس مقام پر فرمایا: ”نفلی حج بالاتفاق مامور کی طرف سے واقع ہوگا اور بھیجنے والے کو خرچ کرنے کا ثواب ملے گا۔“ یہ بات روایت کے خلاف ہے، کیا تونے نہ دیکھا جو حاکم جلیل شہید رحمہ اللہ نے اپنی مختصر الکافی میں فرمایا: نفلی حج ،تندرست آدمی کی طرف سے بھی جائز ہے۔ پھر فرمایا: جب تندرست آدمی نے اپنی طرف سے حج کروایا تو وہ نفلی حج شمار ہوگا۔ پھر فرمایا: اصل میں یہ ہے کہ حج ،حج کرانے والے کی طرف سے شمار ہوگا۔ (غایۃ البیان جلد 4، صفحہ 389، مطبوعہ کویت)
طوالع الانوارمیں علامہ عابد سندھی رحمہ اللہ دونوں طرف کی عبارات ذکرکرنے کے بعدفرماتے ہیں:
ھذا یؤید ما ذکرہ منلا مسکین بأن الأصل الحج یقع عن المحجوج عنہ سواء کان فرضا او نفلا ۔فالاتفاق الذی قدمناہ عن اللباب و شرحہ ،فیہ نظر۔ واللہ اعلم۔والحموی فی حاشیۃ الأشباہ نقل عن شرح الوھبانیہ: بانہ فی النفل یقع عن المأمور و یصیر الثواب للآمر ،ثم قال: وفیہ تامل۔ و لعلہ لمح الی ما ذکرہ مسکین وما قدمناہ عن مختصر الکافی فتنبہ۔
ترجمہ: ”علامہ اتقانی رحمہ اللہ نے جو کچھ بیان فرمایا“یہ علامہ مسکین رحمہ اللہ کے ذکرکردہ مسئلے کی تائید کرتا ہے کہ اصل حج، محجوج عنہ کی طرف سے واقع ہوگا، چاہے وہ فرض حج ہو یا نفل۔ لہذا ہم نے جو پہلے لباب اور اس کی شرح سے اتفاق نقل کیا ہے، اس میں نظر ہے۔واللہ اعلم۔ علامہ حموی رحمہ اللہ نے الاشباہ کے حاشیے میں شرح وہبانیہ سے پہلے یہ عبارت نقل کی: ”نفلی حج میں، حج کی ادائیگی مامور کی طرف سے ہوگی اور آمِر کو ثواب ملے گا“ اس کے بعد فرمایا: اس میں تامل ہے۔ گویا کہ انہوں نےبھی اسی کی طرف اشارہ فرمایا جو علامہ مسکین رحمہ اللہ نے ذکرفرمایا اورجو پہلے ہم نے مختصرالکافی کے حوالے سے ذکرکیا۔لہذا خبردار رہو۔ (طوالع الانوار جلد 4، صفحہ 358، مخطوطہ)
غایۃ البیان میں علامہ اتقانی رحمہ اللہ کے مؤقف کی ترجیح:
1۔متون وشروح کا اطلاق:
حجِ بدل کے باب میں متون میں فرض ونفل میں مطلقا نیابت کو جائز قراردینااور شروح میں فرض ونفل کی تقسیم کے بغیر مطلقا ہی یہ فرمانا کہ حج کی ادائیگی آمر کی طرف سے ہوگی، اور اسی کو صحیح مذہب اور محققین کا مذہب فرمانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ راجح وہی ہے جو علامہ اتقانی رحمہ اللہ نےفرمایا۔
متن جیسے کنزالدقائق کے الفاظ”و إنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل“۔
کافی للحاکم کے الفاظ” والحج التطوع جائز عن الصحيح“۔
شروح جیسے مبسوط للسرخسی کے الفاظ”أن الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره أن أصل الحج يكون عن المحجوج عنه وأن إنفاق الحاج من مال المحجوج عنه كإنفاق المحجوج عنه من مال نفسه أن لو قدر على الخروج بنفسه و بنحوه جاءت السنة“۔
فتح القدیر کے الفاظ”مختار شمس الأئمة السرخسي وجمع من المحققين أنه يقع عن الآمر و هو ظاهر المذهب، و يشهد بذلك الآثار من السنة ومن المذهب بعض الفروع. فمن الآثار حديث الخثعمية، و هو أن امرأة من خثعم قالت: يا رسول اللہ إن فريضة اللہ في الحج على عباده أدركت أبي شيخا كبيرا لا يثبت على الراحلة أفأحج عنه؟ قال نعم متفق عليه،فقد أطلق على فعلها الحج كونه عنه، و كذا قوله للرجل حج عن أبيك و اعتمر رواه أبو داود والنسائي والترمذي وصححه. و أما الفروع فإن المأمور لا يسقط عنه حجة الإسلام بهذه الحجة، فلو كانت عنه لسقطت، إذ الفرض أن حجة الإسلام تتأدى بإطلاق النية وتلغو الجهة على ذلك التقدير، وفيه تأمل. و لم يستدل في البدائع بعد حديث الخثعمية سوى باحتياج النائب إلى إسناد الحج إلى المحجوج عنه في النية، و لو لم يقع نفس الحج عن الآمر لم يحتج إلى نيته“۔
ہدایہ اورتبیین الحقائق میں ہے ”و اللفظ للتبیین“ لأنه في الحج النفل تجوز الإنابة مع القدرة؛ لأن باب النفل أوسع ألا ترى أنه يجوز التنفل في الصلاة قاعدا و راكبا مع القدرة على القيام و النزول ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره أن أصل الحج يقع عن المحجوج عنه“
مزید بھی کئی کتب فقہ میں اسی طرح اطلاق کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
2۔ متعدد فروعات اسی پر دلالت کرتی ہیں جس طرح صاحب فتح القدیر رحمہ اللہ نے اوپر کی عبارت میں فرمایا۔
پہلی فرع: مبسوط للسرخسی میں ہے
رجل دفع مالا إلى رجل ليحج به عن الميت فلم يبلغ مال الميت النفقة فأنفق المدفوع إليه من ماله و مال الميت فإن كان أكثر النفقة من مال الميت و كان ماله بحيث يبلغ ذلك أو عامة النفقة فهو جائز و إلا فهو ضامن يرده، و يحج من حيث يبلغ۔۔۔۔ و إن كان أكثر النفقة من مال نفسه كان جميع نفقته من مال نفسه فيكون الحج عنه و يضمن ما أنفق من مال الميت؛ لأنه مخالف لأمره فإنه أمر بأن ينفق في سفر الحج بذلك السفر عن الميت لا عن نفسه، و هذه المسألة تدل على أن الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره أن أصل الحج يكون عن المحجوج عنه و أن إنفاق الحاج من مال المحجوج عنه كإنفاق المحجوج عنه من مال نفسه أن لو قدر على الخروج بنفسه وبنحوه جاءت السنة
خلاصہ یہ کہ کسی نے دوسرے کو میت کی طرف سے حج کرنے کیلئے بھیجا تو اگر اکثر خرچہ میت کے مال سے ہے تو حج میت کی طرف سے ہوگا،اگر اکثر نفقہ جانے والے نے اپنے مال سے کیا تو حج جانے والے کی طرف سے ہوگا اور میت کے مال میں سے جو خرچ کیا اس کا تاوان لازم ہوگا۔ (مبسوط للسرخسی 4، صفحہ 164، مطبوعہ بیروت)
اس مسئلے میں میت کی وصیت کا کوئی ذکرنہیں ہے کہ ہم اسے فرض حج کے بارے میں مانیں بلکہ مطلقا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے کسی میت کی طرف سے حج کرنے کو کہہ رہا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ یہ نفلی حج ہوگا ،اور جب اکثرمال جانے والا اپنے پاس سے دے رہا ہے تو فرمایا کہ میت کے مال کا تاوان لازم ہوگا، یہ تاوان اسی لئے لازم ہورہا ہے کہ میت کی طرف سے حج ادا نہیں ہوا، اگر میت کی طرف سے حج کرنے سے مراد صرف ثواب پہنچانا ہوتا تو مال خرچ کرنے سے ثواب تو پہنچ ہی گیا مگر تاوان لازم ہونے پر ہی شمس الائمہ رحمہ اللہ فرما رہے ہیں کہ یہ مسئلہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ حج، محجوج عنہ کی طرف سے واقع ہوتا ہے۔
دوسری فرع: میت نے زندگی میں تہائی مال میں وصیت کی تھی کہ اس کی طرف سے حج کئے جائیں اور تہائی مال ایک سے زائد حج کو شامل ہے تو تہائی مال میں جتنے بھی حج ہوں گے سب میت کی طرف سے کئے جائیں گے، ظاہر ہے کہ سارے فرض نہیں ہوں گے۔
مبسوط للسرخسی، فتح القدیر، بدائع الصنائع، محیط برہانی، المسالک فی المناسک، خزانۃ الاکمل، الینابیع میں ہے:
و اللفظ لینابیع: و لو اوصی ان یحج عنہ عشرحجج بعشرۃ انفس فاحج الوصی عنہ رجلا واحدا فی عشرسنین اجزاہ، اوصی ان یحج عنہ عشرحجج فی عشرسنین و ثلث مالہ یوفی بذلک کلہ فاحج الوصی عنہ عشرۃ انفس فی سنۃ واحدۃ بغیر امر الحاکم ضمن و ان کان بامرہ لم یضمن۔۔۔۔ و ان اوصی ان یحج عنہ بثلث مالہ وذلک یبلغ حججا کثیرۃ فالوصی بالخیار ان شاء احج عنہ فی کل سنۃ حجۃ واحدۃ وان شاء احج عنہ مقدار ما یبلغ فی سنۃ واحدۃ و التعجیل افضل
خلاصہ یہ کہ اگر دس حج کرنے کی وصیت کی تھی اور تہائی مال اتنا پہنچتا ہے تو وصی دس حج، میت کی طرف سے کروائے گا، اور اگر کل تہائی مال سے حج کرنے کی وصیت کی تو تہائی میں جتنے بھی حج آئیں گے، وصی سب حج میت کی طرف سے کروائے گا۔ (الینابیع فی معرفۃ الاصول والتفاریع صفحہ 606. 607، مطبوعہ سعودیہ)
تیسری فرع: عمرہ بھی فرض یا واجب نہیں ہے ،اگر عمرے کیلئے کسی کو بھیجا کہ میری طرف سے عمرہ کریں تو جانے والے پرلازم ہے کہ پہلے بھیجنے والے کی طرف سے عمرہ کرے، اس کے بعد اگرچہ اپنی طرف سے حج کرلے، کوئی حرج نہیں ہے۔ جس طرح عمرہ فرض نہ ہونے کے باوجود، بھیجنے والے کی طرف سے کرنا ضروری ہے، اسی طرح نفلی حج بھی فرض نہ ہونے کے باوجود،بھیجنے والے کی طرف سے کرنا ضروری ہے۔
بہار شریعت میں رد المحتار سے، اسی طرح البحر الرائق وغیرہ کتب میں ہے:
”و اللفظ للبحر“ إذا أمره بالعمرة فاعتمر ثم حج عن نفسه لم يكن مخالفا، و النفقة في مدة إقامته للحج في ماله؛ لأنه أقام في منفعة نفسه بخلاف ما إذا حج أولا ثم اعتمر للآمر فإنه يكون مخالفا؛ لأنه جعل المسافة للحج، وأنه لم يؤمر به، و إن كانت الحجة أفضل من العمرة؛ لأنه خلاف من حيث الجنس كالوكيل بالبيع بألف درهم إذا باع بألف دينار كذا في المحيط
خلاصہ یہ کہ عمرہ کیلئے بھیجا تو ضروری ہے کہ بھیجنے والے کی طرف سے پہلے عمرہ کرے ،اگر اس نے پہلے اپنی طرف سے حج کیا پھر بھیجنے والے کی طرف سے عمرہ کیا تو تاوان لازم ہوگا کہ بھیجنے والے نے سفر کواپنے عمرے کیلئے مختص کیا تھا اور اس نے اس کے برخلاف کیا۔ (البحرالرائق جلد 3، صفحہ 113، مطبوعہ بیروت)
چوتھی فرع: ہمارا سوال وجواب تو اس میں ہے کہ بھیجنے والے نے خرچہ دیا ہے اور کہا ہے کہ میری طرف سے نفلی حج کریں، بہارشریعت میں تو اس سے بھی آگے کا فرمایا کہ بغیر کسی کے کہے دو اجنبیوں کی طرف سے نفلی حج کا احرام باندھا تو جس ایک کیلئے چاہے اس کیلئے حج کردے اور ثواب تو دونوں کو پہنچا سکتا ہے، جس سے واضح ہے کہ حج کی ادائیگی اس کی طرف سے ہوگی جس کی نیت کی ہے اگرچہ اس نے حکم نہیں دیا اور ثواب دونوں کو پہنچا سکتا ہے، اگرنفلی حج میں ادائیگی اس کی طرف سے ہوتی جس نے افعال ادا کئے ہیں تو پھر یہ کیوں فرمایا جاتا کہ حج کو جس کی طرف سے چاہے کردے، پھر صرف یہی فرمایا جاتا کہ حج اس کی طرف سے ادا ہوا جس نے افعال ادا کئے اور ثواب کسی کو بھی دے سکتا ہے۔
بہارشریعت میں ہے: ”اگر بغیر کہے اپنے آپ دو شخصوں کی طرف سے حجِ نفل کا احرام باندھا تو اختیار ہے جس کے لیے چاہے کر دے مگر اس سے اُ س کا فرض ادانہ ہوگا جب کہ وہ اجنبی ہے۔ یوہیں ثواب پہنچانے کا بھی اختیا رہے بلکہ ثواب تو دونوں کو پہنچا سکتا ہے۔“ (بہار شریعت جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1204، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
اسی طرح امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمہ اللہ نے بھی ایک سوال کے جواب میں میت کی طرف سے حج کی ادائیگی کی اجازت دی ہے یہ نہیں فرمایا کہ حج اپنی طرف سے کریں اور ثواب میت کو بھیجیں ،حالانکہ میت کی طرف سے بظاہر اور سوال میں بھی کسی وصیت یا حکم کا ذکر نہیں تھا، بہارشریعت کا مسئلہ اور امام اہلسنت رحمہ اللہ کا یہ جواب بھی ترجیح کی ایک دلیل ہے کہ دوسرے کی طرف سےنفلی حج کرنے میں بھی ادائیگی دوسرے کی طرف سے ہوتی ہے، افعال ادا کرنے والے کی طرف سے نہیں ہوتی۔ امام اہلسنت رحمہ اللہ سے کیا جانے والا سوال اور اس کا جواب:
سوال: حضرت جناب مولانا صاحب بعدسلام سنت،واضح ہو مجھ کو سخت ضرورت وانتشار برائے دریافت ایک امرواقع ہوگیا، وہ یہ ہے کہ میں اس سال جو حج بیت اللہ کو جاتی ہوں تو بارادہ حجِ بدل اپنے پیرومرشد جناب نانا صاحب حضرت شاہ آل رسول صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاتی ہوں، مارہرہ آ کرایک امرِجدید دریافت ہوا کہ جس سے آج تک اور اب تک بے خبرمحض تھی،وہ امر یہ کہ جناب مرحومہ مغفورہ والدہ صاحبہ جو بیت اللہ تشریف لے گئی تھیں،وہاں جا کر ان کو مرض الموت پیدا ہوا اور بتاریخ آٹھویں ذی الحجہ مقام منی پہنچ کر انتقال ہوگیا اور حج نہیں ہوا، تو مجھ پر اب حج والدہ مغفورہ لازمی ہوگیا، چونکہ میں اپنے ہمراہ بوجہِ محرمیت، برادرزادہ کو لئے جاتی ہوں جس کی عمر 19 سال کی ہے اور اول مرتبہ یہ برادرزادہ بیت اللہ جاتا ہے تو دریافت طلب آپ سے یہ امر ہے کہ میں اس بچہ سے حجِ والدہ مغفورکرادوں اور خود حج بعوضِ پیرومرشدکروں اور میں سابق میں اپنے شوہر اور اپنے والدمغفورکا حج کر کے آئی ہوں اور میرا ذاتی حج، عرصہ اٹھارہ سال ہوا کہ ہوچکا تھا، اگر برادر زادہ سے حجِ والدہ مرحومہ نہ ہوسکتا ہو تو میں خودقیام کرکے ایک سال تک دونوں حجِ مرشد ووالدہ ادا کروں، ان امور کا جواب جلدمرحمت ہو۔
جواب: بعد ادائے تسلیم خادمانہ ملتمس، اگرحضرت کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھا پر اسی سال حج فرض ہوا تھا، اس سے پہلے کسی برس میں مال وغیرہ اتنا نہ تھا کہ حج فرض ہوتا تو جب تو ان کا حج بفضلہ تعالیٰ ادا ہوگیا، بلکہ ایسا ادا ہوا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک ہر سال حج کرتی رہیں گی اور اگر اس سال سے پہلے فرض ہوچکا تھا تو البتہ حجِ فرض ان پرباقی رہا ،حضرت ان کی طرف سے ادا فرمائیں یا ادا کرا دیں تو اجرعظیم ہے۔ اب دیکھا جائے کہ یہ صاحبزادےجب سے بالغ ہوئے ،کسی سال زمانہ حج میں مال وغیرہ اتنا سامان ان کے پاس تھاکہ ان پرحج فرض ہوگیا یا اب تک ان پرفرض نہ ہوا، اگر ان پراصلا فرض نہ ہوا تو حضرت، ان کو والدہ ماجدہ کی طرف سے حج کرا دیں اور خود حضور پرنورپیرومرشد برحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کریں اور اگرخود ان پرحج فرض ہولیا ہو تو یہ دوسرے کی طرف سے حج کرنے سے گناہ گار ہوں گے مگر حج جس کی طرف سے کریں گے ادا ہوجائے گا، ان پرگناہ رہے گا اور ایسی صورت میں ان سے حج غیرکرانا بھی مکروہ ہے کہ ایک گناہ کا حکم دینا ہے۔زیادہ حدادب۔ (فتاوی رضویہ جلد 10، صفحہ 658، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0024
تاریخ اجراء: 14 محرم الحرام 1447 ھ/ 10 جولائی 2025ء