
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر کوئی ہند سے حج کرنے جائے، تو کیا وہ حجِ افراد کر سکتا ہے ؟ نیز اگر یہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر جائے اور عمرہ کرے پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھے، تو کیا یہ حجِ افراد ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والے (مثلاً پاک و ہند کے افراد)کے لیے حجِ قران یا تمتع کی طرح حجِ اِفراد کرنا بھی جائز ہے، اگرچہ افضل حجِ قران ہے اور اس کے بعد حجِ تمتع افضل ہے۔ حجِ افراد میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے، اس میں عمرے کے ارکان ادا نہیں کئے جاتے، صرف حج کے مکمل ارکان اور مناسک کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی آفاقی یہاں سے صرف عمرے کی نیت کرکے جائے اور عمرے کے ارکان مکمل کرکے احرام کھول دے اور پھر مکہ پاک میں رہتے ہوئے آٹھ ذو الحجہ کو حج کا احرام نئے سرے سے باندھے اور حج کے مناسک مکمل کرکے احرام کھولے تو یہ حج تمتع کہلاتا ہے، عموماً پاک و ہند سے جانے والے افراد، حجِ تمتع ہی کرتے ہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2287
تاریخ اجراء: 22ذوالقعدۃ الحرام1446 ھ/20مئی2025 ء