احرام کے کفارے کی ادائیگی میں تاخیر کرنا کیسا؟

احرام میں لازم ہونے والے کفارے کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کسی شخص نے احرام کی حالت میں کفارہ لازم ہونے پرادا کرنے میں تاخیر کی ہو تو کیا تاخیر کی وجہ سے گناہگار ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

احرام کےکفارہ لازم ہوتے ہی فوراً اس کی ادائیگی کرنا واجب نہیں ہوتی،بلکہ اس میں تاخیر کی بھی اجازت ہے،لہٰذا اگر کوئی شخص حج و عمرہ کے مکمل ہونے کے بعد کفارات ادا کرے تب بھی وہ گنہگار بھی نہیں ہوگا اور اس تاخیر سے اُس کے دیگر ارکان پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ افضل یہ ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے کفارہ ادا کرکے اُسے اپنے ذمہ سے ساقط کردے۔

نیز یہاں اس بات کا خیال بھی ضروری ہے کہ دَم کی ادائیگی چونکہ حرم میں ہی ہونا ضروری ہے،حرم کے علاوہ کسی اور جگہ میں دم کی ادائیگی نہیں ہوسکتی،لہٰذا جس پر دم لازم ہو اُسے چاہئے کہ وطن واپس ہونے سے پہلے پہلے دَم ادا کردے کیونکہ وطن واپسی کے بعد عین ممکن ہے کہ کسی کے ذریعے حرم میں دَم کی ادائیگی کی صورت نہ بن پائے۔پھر بھی اگر بغیر دم ادا کیے وطن آگیا تو گنہگار نہیں اسے چاہیے کہ کسی کے ذریعے حرم میں دَم کی ادائیگی کروادے۔

لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:”(اعلم أن الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی) و انما الفور بالمسارعۃ الی الطاعۃ و المسابقۃ الی اسقاط الکفارۃ افضل، لأن فی تاخیر العبادات آفات (فلایأثم بالتاخیر عن أول وقت الامکان و یکون مودیالا قاضیا فی أی وقت ادیٰ) لما سبق من ان امرہ لیس محمولاً علی فورہ (و انما یتضیق علیہ الوجوب فی آخر عمرہ فی وقت یغلب علی ظنہ ان لو لم یؤدہ لفات فان لم یؤد فیہ فمات اثم و یجب علیہ الوصیۃ بالاداء... و الافضل تعجیل اداء الکفارات“ ترجمہ: جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں البتہ نیکی کے کاموں میں جلدی اور کفاروں کو ساقط کرنے میں سبقت کرنا افضل ہے کیونکہ عبادات کی تاخیر میں آفات ہیں، (لیکن چونکہ فوری ادائیگی واجب نہیں) لہٰذا ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا، اور جس وقت بھی ادا کرے گا، ادا کرنے والا ہی کہلائے گا،قضا کرنے والا نہیں کیونکہ یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ کفارہ کی ادائیگی کا حکم فوری نہیں۔ البتہ عمر کے آخری حصے میں جب اسےظن غالب ہو جائے کہ اگر اب اس نے ادا نہ کیاتو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا توایسی صورت میں اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو گا اور اگر اس نے ادا نہ کیا اور  مرگیا تو گنہگار ہوگااور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے۔ افضل یہ ہے کہ کفاروں کی ادائیگی میں جلدی کرے۔ (لباب المناسک مع شرحه، باب فی جزاء الجنایات و کفاراتھا، صفحه542، مکۃالمکرمۃ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2296

تاریخ اجراء: 09ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/07مئی2025ء