
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
مردوں اور عورتوں کے حج میں کیا کیا فرق ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
(1)مرد احرام میں دو بے سلی چادریں پہنے گا جبکہ عورت اپناعمومی لباس ہی پہنے رکھے گی۔ (2) مرد کو احرام کی حالت میں اپنا سر ڈھانپنا جائز نہیں جبکہ عورت کو سر کا مکمل پردہ کرنا ہوگا، البتہ عورت کے لیےبھی اپنا چہرہ کھلا رکھنا لازم ہے، البتہ غیر محرم مردوں کے سامنے کسی کتاب، گتے یا کسی ٹھوس چیز سے آڑ کرلےجو چہرے سے کچھ دور ہو۔ (3) عورت تلبیہ یعنی لبیک بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستہ آواز میں پڑھے گی۔ (4) عورت طواف کی حالت میں رمل و اضطباع نہیں کرے گی۔ (5) عورت سعی میں عام انداز سے چلے گی، دوڑے گی نہیں۔ (6) عورت احرام سے نکلنے کے لیے صرف تقصیر کروائے گی یعنی کم از کم چوتھائی سر کے بالوں میں سے ہر ہر بال انگلی کے ایک پورے جتنا کاٹے گی، اسے مردوں کی طرح حلق کروانا جائز نہیں۔ (7) عورت دستانے اور موزے پہن سکتی ہے، نیز عورت ہر قسم کی چپل پہن سکتی ہے۔ پاؤں کے درمیان کی ہڈی کھلی رکھنے کا حکم صرف مرد کے لیے ہے۔
عورتیں طواف و سعی کے دوران پردے کا بالخصوص لحاظ رکھیں، جہاں ہجوم ہو، وہاں ہرگز داخل نہ ہوں کہ ایسی صورت میں مردوں کے ساتھ جسم کے مس ہونے کا اندیشہ ہے جو گناہ کا کام ہے اور ایسی بارگاہ میں گناہوں سے خود کو بچانا از حد ضروری بالخصوص جب ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہو، تو اس میں اور زیادہ احتیاط کی حاجت ہے۔
منحۃ السلوک میں ہے:
و لا ترفع صوتھا ولا ترمل ولا تھرول للفتنۃ ولا تحلق ولکن تقصر
عورت فتنے کے سبب اپنی آواز بلند نہیں کرے گی، رمل نہیں کرے گی اور سعی میں دوڑے گی نہیں اور حلق نہیں کرے گی بلکہ تقصیر کرے گی۔“(منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک، ج 1، ص 314، الناشر: وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ، قطر)
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”طواف و سعی کے سب مسائل میں عورتیں بھی شریک ہیں مگر (1) اضطباع (2) رمل (3) مسعی میں دوڑنا، یہ تینوں باتیں عورتوں کےلیے نہیں۔“ (فتاوی رضویہ،ج 10، ص 745، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے: ”احرام میں مونھ چھپانا عورت کو بھی حرام ہے، نا محرم کے آگے کوئی پنکھا وغیرہ مونھ سے بچا ہوا سامنے رکھے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 1083، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”بعض عورتوں کو میں نے خود دیکھا ہے کہ نہایت بے باکی سے سعی کرتی ہیں کہ اُن کی کلائیاں اور گلا کُھلا رہتاہے اور یہ خیال نہیں کہ مکہ معظمہ میں معصیت کرنا نہایت سخت بات ہے کہ یہاں جس طرح ایک نیکی لاکھ کے برابر ہے۔ یوہیں ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر بلکہ یہاں تو یہاں کعبہ معظمہ کے سامنے بھی وہ اسی حالت سے رہتی ہیں بلکہ اسی حالت میں طواف کرتے دیکھا، حالانکہ طواف میں ستر کا چھپانا علاوہ اُسی فرض دائمی کے واجب بھی ہے تو ایک فرض دوسرے واجب کے ترک سے دوگناہ کیے۔ وہ بھی کہاں بیتُ اﷲ کے سامنے اور خاص طواف کی حالت میں بلکہ بعض عورتیں طواف کرنے میں خصوصاً حجرِ اسود کو بوسہ دینے میں مردوں میں گُھس جاتی ہیں اور اُن کا بدن مردوں کے بدن سے مس ہوتا رہتا ہے مگر ان کو اس کی کچھ پروا نہیں حالانکہ طواف یا بوسۂ حجرِ اسود وغیرہما ثواب کے لیے کیا جاتا ہے مگر وہ عورتیں ثواب کے بدلے گناہ مول لیتی ہیں لہٰذا ان امور کی طرف حجاج کو خصوصیت کیساتھ توجہ کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ جو عورتیں ہوں انھیں بتاکید ایسی حرکات سے منع کرنا چاہیے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 1110، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2280
تاریخ اجراء: 08ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/06مئی2025ء