
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ اگر کسی حاجی نے 10 ذوالحجہ کو منیٰ میں رمی کرنے کے بعد حالتِ احرام میں ہی یعنی قربانی یا حلق سے پہلے طوافِ زیارت کر لیا، تو کیا اُس پر دم لازم ہوگا؟
سائل: عبد اللہ منہاس (جھنگ)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
احکامِ شریعت کے مطابق ترتیب صرف افعالِ ثلاثہ (رَمی، قربانی اور حلق یا تقصیر) میں واجب ہے، یعنی حجِ قران اور حجِ تمتع کرنے والے کے لئے رَمی، قربانی اور حلق یا تقصیر میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے اور حجِ افراد والے پر چونکہ قربانی واجب نہیں، اس لئے اُس پر فقط رَمی اور حلق یا تقصیر میں ترتیب واجب ہے۔ اگر کسی حاجی نے مذکورہ افعال میں ترتیب کی خلاف ورزی کی، تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پر دَم لازم ہوگا، جبکہ طوافِ زیارت اور افعالِ ثلاثہ (رَمی، قربانی اور حلق یا تقصیر) میں ترتیب واجب نہیں، بلکہ سنت ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر کسی حاجی نے قربانی یا حلق سے پہلے ہی طوافِ زیارت کر لیا، تو اس کا طواف ہو جائے گا اور اُس پر دَم وغیرہ کچھ لازم نہیں ہوگا، لیکن بلاعذرِ شرعی ایسا کرنا مکروہ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ عمل ہے۔
ترتیب صرف افعالِ ثلاثہ (رَمی، قربانی اور حلق یا تقصیر) میں واجب ہے، نہ کہ طوافِ زیارت اور افعالِ ثلاثہ میں واجب ہے، جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں:
أن الطواف لا يجب ترتيبه على شيء من الثلاثة و إنما يجب ترتيب الثلاثة الرمي ثم الذبح ثم الحلق، لكن المفرد لا ذبح عليه فيجب عليه الترتيب بين الرمي و الحلق فقط
ترجمہ: طوافِ زیارت کی ترتیب افعالِ ثلاثہ (رَمی، قربانی اور حلق) میں سے کسی پر واجب نہیں، بلکہ ان افعالِ ثلاثہ میں ترتیب واجب ہے، یعنی پہلے رمی، پھر قربانی اور اس کے بعد حلق (یا تقصیر) کرے، لیکن حجِ افراد والے پر قربانی واجب نہیں، اس لئے اُس پر فقط رَمی اور حلق(یا تقصیر) میں ترتیب واجب ہے۔ (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الحج، جلد3، صفحہ 669، مطبوعہ کوئٹہ)
منحۃ الخالق میں ہے:
أن أول وقت صحة الطواف إذا طلع الفجر يوم النحر، و لو قبل الرمي و الحلق۔۔۔ و ظاهره انه لا يجب الترتيب بينه و بين الرمي و الذبح و الحلق
ترجمہ:طوافِ زیارت کے صحیح ہونے کا اول وقت یہ ہے کہ جب یومِ نحر (دسویں ذو الحجہ) کی فجر طلوع ہو جائے، اگرچہ یہ طواف رَمی اور حلق سے پہلے ہو۔۔۔ اس سے ظاہر ہوا کہ طوافِ زیارت اور رَمی، قربانی اور حلق میں ترتیب واجب نہیں ہے۔ (منحۃ الخالق علی بحر الرائق، کتاب الحج، جلد 3، صفحہ 26، مطبوعہ دار الكتاب الاسلامي)
طوافِ زیارت اور افعالِ ثلاثہ میں ترتیب سنت ہے، چنانچہ علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ / 1605ء) لکھتے ہیں:
(أما الترتیب بینہ) ای بین طواف الزیارۃ (و بین الرمی والحلق) ای کونہ بعد ھما ( فسنّۃ و لیس بواجب)
ترجمہ: بہرحال طوافِ زیارت اور رَمی و حلق میں ترتیب سنت ہے، یعنی رَمی اور حلق کے بعد طوافِ زیارت کرنا سنت ہے، واجب نہیں۔ (المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط، باب طواف الزیارۃ، صفحہ 329، مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
مذکورہ بالا احکام سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے رمی، قربانی یا حلق سے پہلے طوافِ زیارت کر لیا، تو اُس پر دَم وغیرہ لازم نہیں ہوگا، چنانچہ درمختار مع ردالمحتار میں ہے:
(لا شيء على من طاف) أی مفردا أو غيره شرح اللباب (قوله قبل الرمي و الحلق) أي و كذا قبل الذبح بالأولى لأن الرمي مقدم على الذبح
یعنی اگر کسی شخص نے رمی و حلق سے پہلے طوافِ زیارت کر لیا، تو اُس پر کچھ لازم نہیں ہوگا، خواہ وہ طوافِ زیارت کرنے والا مُفرد ہو یا کوئی اور (متمتع یا قارن)، اسی طرح قربانی سے پہلے طوافِ زیارت کرنے والے پر بدرجہ اولیٰ کچھ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ رَمی، قربانی سے پہلے ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، جلد 3، صفحہ 669، مطبوعہ کوئٹہ)
مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/ 1971ء)لکھتےہیں: ”خیال رہے کہ امام اعظم کے ہاں رَمی، ذبح، سر منڈانا ان میں ترتیب قارن اور متمتع پر واجب ہے، صاحبین کے ہاں سنت، یوں ہی قربانی حج کا صرف قربانی کے دنوں میں ہونا امام اعظم کے ہاں واجب ہے، مگر حرم میں ذبح ہونا بالااتفاق واجب کہ حرم کے علاوہ اور جگہ حج کی قربانی ادا نہیں ہوسکتی، مگر حلق و طواف یا رَمی و طواف میں ترتیب واجب نہیں، یہ فرق بہت خیال میں رہے، لہذا اگر کوئی طواف پہلے کرے، پھر رَمی، تو اس پر دم واجب نہ ہوگا۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 169، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)
بلاعذرِ شرعی افعالِ ثلاثہ سے قبل طواف زیارت کرنا مکروہ تنزیہی ہے، چنانچہ علامہ علاؤالدین حَصْکَفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ / 1677ء) لکھتےہیں:
لو طاف قبل الرمي و الحلق لا شيء عليه و يكره
ترجمہ: اگر کسی شخص نے رَمی و حلق سے پہلے طوافِ زیارت کر لیا، تو اُس پر کچھ لازم نہیں ہوگا، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔
مذکورہ بالا عبارت کے الفاظ "و يكره" کے تحت علامہ طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231ھ/ 1815ء) لکھتے ہیں:
أی تنزیھًا لأنھا فی مقابلۃ السنّۃ
یعنی مکروہِ تنزیہی ہے، کیونکہ کراہت سنّت کے مقابلہ میں ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، جلد 3، صفحہ 501، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9368
تاریخ اجراء: 19ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 16 جون 2025ء