
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نابالغ بچہ حج یا عمرہ کے احرام کی نیت کیسے کرے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نابالغ بچہ اگر ناسمجھ ہے تو اس کی طرف سے اس کا ولی یعنی سرپرست احرام کی نیت کرے اور حج و عمرہ کے افعال ادا کرے، البتہ اس کی طرف سے طواف کے بعد کی دو رکعتیں سرپرست ادا نہیں کرسکتا۔ سرپرست کے احرام باندھنے اور افعال ادا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نابالغ جب ناسمجھ ہو تو نہ اس کا احرام درست ہوسکتا ہے اور نہ وہ افعال کی ادائیگی کر سکتا ہے۔
نابالغ ناسمجھ بچے کی طرف سے نیت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سر پرست اس کی طرف سے یہ کہے:احرمت عن فلان یعنی میں نے فلاں کی طرف سے احرام باندھا پھر اس کے بعد کہے:لبیک عن فلان۔ دونوں جگہ لفظِ فلاں کی جگہ اس بچے کا نام ذکر کرے جس کی طرف سے نیت کررہا ہے۔ یہ نیت اردو میں بھی کی جا سکتی ہے، مثال کے طور پر بچہ کا نام عرفان ہے، تو یوں نیت کرے:میں عرفان کی طرف سے احرام باندھتا ہوں۔ یہ بات ضرور توجہ میں رکھی جائے کہ سرپرست کو اپنے احرام کی نیت جدا گانہ کرنی ہے۔
نابالغ بچہ اگر سمجھدار ہے اورخود احرام باندھنے اور افعال ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، تو سرپرست اس کی طرف سے احرام نہیں باندھ سکتا، بلکہ نابالغ سمجھدار بچہ خود ہی احرام کی نیت کرے گا اور حج یا عمرہ کے افعال بھی خود ادا کرےگا اور احرام باندھنے اور افعال ادا کرنے کے تمام معاملات بالغ افراد کی طرح ہی سر انجام دے گا۔
واضح رہے کہ نابالغ خواہ سمجھدار ہو یا ناسمجھ، حج کی ادائیگی کی صورت میں اس کا یہ حج، نفلی حج ہوگا اور اس کو ثواب بھی ملے گا، لیکن اس کا فرض حج ادا نہ ہوگا، لہٰذا بالغ ہونے کے بعد اگر حج فرض ہونے کی تمام شرائط پائی جائیں، تو اس پر حج کرنا فرض ہوگا، بچپن کا حج، فرض حج کی طرف سے کافی نہیں ہوگا۔
رد المحتار میں ہے:
الصبي الغير المميز لا يصح إحرامه ولا أداؤه، بل يصحان من وليه له، فيحرم عنه من كان أقرب إليه، فلو اجتمع والد و أخ يحرم الوالد
یعنی ایسا بچہ جو تمییز نہیں رکھتا، اس کا نہ احرام درست ہے اور نہ افعال کی ادائیگی، بلکہ یہ دونوں باتیں اس کے لئے اس کے ولی کی طرف سے درست ہوں گی، لہٰذا بچے کی طرف سے ولی اقرب احرام باندھے، پس اگر والد اور بھائی دونوں جمع ہوں، تو والد احرام باندھے۔ (رد المحتار، جلد 3،صفحہ 628، مطبوعہ: کوئٹہ)
رد المحتار میں ہے:
قال محمد في الأصل و الصبي الذي يحج له أبوه يقضي المناسك و يرمي الجمار و أنه على وجهين الأول إذا كان صبيا لا يعقل الأداء بنفسه، و في هذا الوجه إذا أحرم عنه أبوه جاز و إن كان يعقل الأداء بنفسه يقضي المناسك كلها يفعل مثل ما يفعله البالغ،ا هـ فهو كالصريح في أن إحرامه عنه إنما يصح إذا كان لا يعقل
یعنی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاصل میں فرمایا:وہ بچہ جس کے لئے اس کا باپ حج کرے،تو وہ مناسک ادا کرے گا اور جمرات کی رمی کرے گا،یہ مسئلہ دو صورتوں پر ہے: پہلی صورت: جب بچہ خود ادائیگی کی سمجھ نہیں رکھتا اور اس صورت میں جب اس کی طرف سے اس کا والد احرام باندھے تو جائز ہے اور اگر خود ہی ادائیگی کو سمجھتا ہے تو تمام مناسک خود ادا کرے گا اور بالغ کی مثل افعال ادا کرے، تو یہ عبارت اس معاملہ میں صریح کی طرح ہے کہ باپ کا احرام بچہ کی طرف سےصرف اسی وقت درست ہوگا جو بچہ سمجھدار نہ ہو۔ (رد المحتار، جلد 3، صفحہ 535، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے: ”نا سمجھ بچہ نے خود احرام باندھا یا افعالِ حج ادا کئے ، تو حج نہ ہوا، بلکہ اس کا ولی اس کی طرف سے بجا لائے مگر طواف کے بعد کی دو رکعتیں کہ بچہ کی طرف سے ولی نہ پڑھے گا۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 1075، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
رفیق الحرمین میں ہے: ”ناسمجھ بچے کی طرف سے احرام کی نیت اس کا ولی کرے اور اس طرح کہے:احرمت عن فلان یعنی میں فلاں کی طرف سے احرام باندھتا ہوں (فلاں کی جگہ اس بچے کا نام لے)، اسی طرح لبیک بھی بچے کی طرف سے اس طرح کہے:لبیک عن فلان (فلاں کی جگہ اس کا نام لے اور آخر تک لبیک مکمل کرے)عربی میں نیت اسی وقت کار آمد ہوگی جبکہ معنی معلوم ہوں، اپنی مادری زبان یا اردو میں بھی نیت کر سکتے ہیں، مثلاً بچے کا نام ہلال رضا ہے، تو یوں نیت کیجئے: میں ہلال رضا کی طرف سے احرام باندھتا ہوں۔“ (رفیق الحرمین، صفحہ 342۔ 343، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
رفیق الحرمین میں ہے: ”سمجھ دار بچہ احرام کی نیت خود کرے گا، ولی (یعنی سرپرست) اس کی طرف سے احرام نہیں باندھ سکتا۔۔۔ اگر سمجھدار بچہ خود احرام باندھنے کی قدرت رکھتا ہو، تو اسے خود احرام باندھنا ہوگا، ولی (یعنی سرپرست) اس کی طرف سے احرام نہیں باندھ سکتا اور نہ ولی کے باندھنے سے سمجھدار بچہ محرم ہوگا اور اگر سمجھدار بچہ خود احرام باندھنے کی قدرت نہیں رکھتا، تو ولی اس کی طرف سے احرام باندھے گا۔“ (رفیق الحرمین۔ ملتقطاً، صفحہ 342، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے:”حج تین طرح کا ہوتا ہے۔ ایك یہ کہ نراحج کرے، اسے افراد کہتے ہیں، اس میں بعدِ سلام یوں کہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرَیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہ لِیْ وَ تَقَبَلْہُ مَنِّیْ نَوَیْتَ الْحَجَّ مُخْلِصًا لِلّٰہِ تَعَالٰی۔
دوسرا یہ کہ یہاں سے نرے عمرے کی نیت کرے، مکہ معظمہ میں حج کا احرام با ندھے اسے تمتع کہتے ہیں، اس میں بعدِ سلام یوں کہے:
اَللّٰھُمَّ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْ ھَالِی وَ تَقَبَّلْھَا مِنِّیْ نُوَیْتُ الْعُمْرَۃَ مُخْلِصًالِلّٰہِ تَعَالٰی۔
تیسرا یہ کہ حج وعمرہ کی یہیں سے نیت کرے اور یہ سب سے افضل ہے، اسے قِران کہتے ہیں، اس میں بعدِ سلام یو ں کہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْ ھُمَالِیْ وَ تَقَبَّلْھُمَا مِنِّیْ نُوَیْتُ الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ تَعَالٰی۔
اور تینوں صورتوں میں اس نیت کے بعد لبیك بآوازِ بلند کہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 1072، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
رفیق الحرمین میں ہے: ”نیت کے الفاظ عربی میں کہنا ضروری نہیں، اپنی مادری زبان میں بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ زبان سے کہنا لازمی نہیں، صرف دل میں ارادہ بھی کافی ہے، ہاں زبان سے کہہ لینا افضل ہے۔“ (رفیق الحرمین، صفحہ 78، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”بچے پر (حج) فرض نہیں، کرے گا تو نفل ہوگا اور ثواب اسی کے لئے ہے، باپ وغیرہ مربّی، تعلیم و تربیت کا اجر پائیں گے، پھر بعدِ بلوغ شرطیں جمع ہوں گی، اس پر حج فرض ہوجائے گا، بچپن کا حج کفایت نہ کرے گا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 775، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13777
تاریخ اجراء: 17 شوال المکرم 1446ھ/ 16 اپریل 2025ء