حج و عمرہ پر جاتے ہوئے رشتہ داروں سے معافی مانگنا

حج و عمرہ پر جانے سے پہلے رشتہ داروں سے معافی مانگنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا حج یا عمرہ پہ جانے سے پہلے رشتہ داروں وغیرہ سے معافی مانگنا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

" جن لوگوں کے حقوق تلف کیے، دل آزاریاں کیں، ان سے معافی مانگنا، جو حقوق ادائیگی کے قابل ہوں ان کی ادائیگی کرنا یا معاف کروانا وغیرہ بہرحال لازم ہے، خواہ حج و عمرہ پر جائے یا نہ جائے۔ پس اگر حج و عمرہ پر جانے والے نے اس وقت تک یہ معاملات نہیں کیے تواب جانے سے پہلے کرلے، لہذا جس کا قرض آتا ہو یا امانت پاس ہو ادا کردے، جن کے مال ناحق لیے ہوں واپس دے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال مالکوں کی نیت سے فقیروں کو دے دے۔ چلتے وقت اپنے دوستوں عزیزوں سے ملے اوراپنے قصورمعاف کرائے، اوران پرلازم ہے کہ دل سے معاف کردیں۔

مناسک ملا علی قاری کے مقدمے میں حج کا ارادہ کرنے والے کے لیے آداب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

وینبغی ان یقضی ما امکنہ من دیونہ و یؤکل من یقضی ما لم یتمکن من قضائہ، ویرد العواری والودائع ویستحل من کل من کان بینہ وبینہ معاملۃ فی شیء او مصاحبۃ“

ترجمہ: اور اسے چاہئے کہ اپنے دیون میں سے جس قدر ممکن ہو ادا کر دے اور جس کو ادا کرنے پر قادر نہیں، اس کو ادا کرنے کا کسی کو وکیل بنا دے اور عاریت اور امانتیں واپس کر دے۔ اور ہر اس شخص سے جس کے ساتھ اس کا (یعنی حج یاعمرے پر جانے والے کا) کسی شی یااٹھنے بیٹھنےمیں کوئی معاملہ ہو، اس کی معافی طلب کرے۔ (مناسک ملا علی قاری، مقدمہ فی آداب مرید الحج، صفحہ9، مطبوعہ: المکۃ المکرمۃ)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ اپنے رسالے "انوار البشارۃ فی مسائل الحج والزیارۃ" میں حج کے آداب میں فرماتے ہیں: ”جس کاقرض آتاہویاامانت پاس ہواداکردے، جن کے مال ناحق لیے ہوں واپس دے یامعاف کرائے، پتانہ چلے تو اتنا مال فقیروں کو دے دے۔۔۔چلتے وقت اپنے دوستوں عزیزوں سے ملے اور اپنے قصور معاف کرائے اور اُن پر لازم ہے کہ دل سے معاف کردیں۔ حدیث میں ہے کہ جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت لائے واجب ہے کہ قبول کرلے، ورنہ حو ضِ کوثر پر آنا نہ ملے گا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ726، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4297

تاریخ اجراء: 12ربیع الثانی1447 ھ/06اکتوبر 2520 ء