
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ پچاس طواف والی فضیلت ایک ہی بار کے سفر میں کرنے والے کے لیے ہے یا ساری زندگی کے پچاس مکمل ہو جائیں؟ دونوں صورتوں میں سارے ہی طواف شمار ہوں گے، خواہ حج و عمرہ کے طواف ہوں یا نفلی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:” جس شخص نے بیت اللہ کا پچاس مرتبہ طواف کیا، وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے، جیسا کہ اُس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اُسے پیدا کیا۔“ اِس روایت پر کلام کرتے ہوئے شارحین حدیث نے لکھا کہ مرادِ حدیث یہ ہے کہ مسلمان کے نامہِ اعمال میں پچاس طواف کا ثواب موجود ہونا چاہیے، اب خواہ وہ پچاس طواف ایک ہی سفر میں کر لیے جائیں یا ساری زندگی میں مکمل کیے جائیں، دونوں صورتوں میں یہ فضیلت حاصل ہے۔ جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ طواف سے کون سا طواف مراد ہے، تو شارحینِ حدیث کی کتابوں میں یہ تصریح نظر سے نہیں گزری، البتہ نبی رحمت ﷺ کے الفاظ من طاف بالبیت کی عمومیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہنا ممکن ہے کہ طواف سے مراد ہر طرح کا طواف ہے، خواہ وہ حج و عمرہ کے طواف ہوں یا نفلی طواف ہوں۔
ابو عیسیٰ امام محمد بن عیسیٰ ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال: 279ھ/ 892ء) حدیث روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من طاف بالبيت خمسين مرة خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه۔
ترجمہ: جس شخص نے بیت اللہ کا پچاس مرتبہ طواف کیا، وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے، جیسا کہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو پیدا کیا تھا۔(جامع الترمذی، جلد 02، باب ما جاء في فضل الطواف، صفحہ 209، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)
"المصنف لابن ابی شیبۃ"میں ہے:
من طاف بالبيت خمسين أسبوعا، خرج من الذنوب كيوم ولدته أمه۔
ترجمہ: جو شخص بیت اللہ کے سات چکر (ایک طواف کے حساب سے) پچاس مرتبہ پورے کرے، وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے، جیسا اس دن تھا، جس دن اُس کی ماں نے اُسے پیدا کیا تھا۔ (المصنف لابنِ ابی شیبۃ، جلد 03، صفحہ 123، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)
اِس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ عبدالرؤف مُناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (وِصال: 1031ھ / 1621ء) لکھتےہیں:
المراد أن الخمسين توجد في صحيفته و لو في عمره كله لا أنه يأتي بها متوالية۔
ترجمہ: مراد یہ ہے کہ ”پچاس مرتبہ طواف ہونا“ اُس کے نامہ اعمال میں پایا جائے، خواہ یہ پچاس طواف مکمل زندگی میں کیے ہوں۔ یہ مراد نہیں کہ اُس حاجی یا معتمر نے ایک ہی سفر میں پے در پے یہ طواف کیے ہوں۔ (فیض القدیر، جلد 06، صفحہ 175، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)
ابو العباس حافظ محب الدین طبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (وِصال: 1031ھ / 1621ء) لکھتےہیں:
قال أهل العلم: و ليس المراد أن يأتي بها متوالية في آنٍ واحد، و إنما المراد أن يُوجد في صحيفة حسناته، و لو في عمره كله۔
ترجمہ: اہلِ علم نے فرمایا: اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ طواف ایک ہی وقت میں مسلسل انجام دیے جائیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان کی نیکیوں کے دفتر میں یہ عمل کہیں بھی موجود ہو، خواہ مکمل زندگی میں ادا کیے ہوں۔ (القِری لقاصد أم القری، صفحۃ 325، مطبوعہ المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، لبنان)
اِس روایت میں طواف سے کون سا طواف مراد ہے، اُسے سمجھنے کے لیے اصولِ فقہ کا یہ بنیادی قاعدہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ
العام یبقی علی عمومہ حتی یاتی ما یخصصہ
یعنی ”جب کوئی حکم عام الفاظ میں آئے تو وہ عام ہی رہتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسری دلیل اسے خاص نہ کر دے۔“ جب ہم زیرِ بحث حدیث پر اِس اصول کا اطلاق کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں
مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ
(جس نے بیت اللہ کا طواف کیا) کے عام الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ شارع ﷺ نے، اس طواف کو کسی خاص نوع مثلاً "طوافِ حج" یا "طوافِ عمرہ" کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ لہٰذا، جب حکم میں کوئی قید نہ ہو تو وہ پھر اپنے عموم پر رہتا ہے۔ اس دلیل کو مزید تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ ذخیرہِ حدیث میں کوئی ایسی دوسری نص (تخصیص) موجود نہیں، جو اس عظیم فضیلت کو صرف کسی مخصوص طواف تک محدود کرتی ہو اور نفلی طواف کو اس سے خارج کرتی ہو۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9373
تاریخ اجراء: 22 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 19 جون 2025ء