
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ لکی ڈرا کے ذریعے عمرہ کرنا یا کرانا کیسا ہے؟عوام میں اب عام ہوتا جا رہا ہے کہ 100 روپے کی چیز خریدیں اور کوپن لیجیے، پھر ڈرا کے ذریعے جس کا کوپن نکل آئے اُسے انعام کے طور پر عمرہ کی ٹکٹ یا کوئی اور چیز دی جاتی ہے، کیا یہ جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
لکی ڈرا کے ذریعے عمرہ کرنے کرانے کے جائز یاناجائز ہونے کا مدار اس کے طریقہ کار پر ہے، اگر اس میں کوئی غیر شرعی طریقہ نہ ہو تو شرعاً جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔سوال میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، اگر اس میں مخصوص خریداری کرلینے کے بعد کوپن خریدنا نہ پڑے بلکہ خریدی ہوئی چیز کے ساتھ مفت مل جائے، تو کوپن کو قرعہ اندازی میں شامل کرکے عمرےکا ٹکٹ یا کوئی اور انعام دینا، لینا شرعاًجائز ہے، ا س میں کوئی حرج نہیں لیکن عام طور پر ہر لکی ڈرا میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ بعض میں خریداری کرنے کے بعد الگ سے کچھ رقم دے کر کوپن بھی خریدنا پڑتا ہے، یونہی بعض طریقہ کار میں اسکیم کے تحت کچھ مخصوص رقم جمع کروانے پر قرعہ اندازی میں نام شامل کیا جاتا ہے، اس کے بعدقرعہ اندازی ہوتی ہے اور اُس میں جن کا نام آتا ہے ان کو توعمرے کی ٹکٹ یا کوئی چیز بطور انعام مل جاتی ہے جبکہ بقیہ لوگوں کی رقم ضائع ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ کار جوئے پر مشتمل ہے جو کہ بلا شبہ ناجائز وحرام ہے، اس کی ہرگز اجازت نہیں۔
جوئے کے ناجائز و حرام اور بہت بڑے گناہ ہونے کے بارے میں رب تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا‘‘
ترجمہ کنزالعرفان: آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔ (پارہ02، البقرۃ: 219)
مزید ارشاد باری تعالی ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘
ترجَمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (پارہ70، المائدۃ:90)
مسند احمد کی حدیث پاک ہے:
’’عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام‘‘
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﷲ تعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیااور فرمایا: ہر نشے والی چیز حرام ہے۔ (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 381، مؤسسة الرسالة، بیروت)
تبیین الحقائق میں ہے:
”القمار من القمر الذی يزاد تارة، وينقص اخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔۔وهو حرام بالنص“
ترجمہ: قمار قمر سے مشتق ہے، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہوتا ہے، قمار کو قمار اس لیے کہا جاتا ہے کہ جوئے بازی کرنے والو ں میں سے ہر ایک کیلئے یہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا مال، دوسرے کے پاس چلا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے کا مال حاصل کرلے، اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔ (تبیین الحقائق، جلد6، صفحه 227، مطبوعه قاهرة)
مجلس افتا(دعوت اسلامی) کی کتاب بنام ’’جوئے کی رائج صورتیں اور احکام‘‘ میں ہے: ’’عمرہ کے ٹکٹ، بغداد شریف یا اجمیر شریف حاضری و غیرہ مختلف مقدس ناموں سے قرعہ اندازی کی جاتی ہے اور سو روپے یا اس سے کچھ کم، زیادہ رقم فی پر چی وصول کی جاتی ہے اور یہ طے ہوتا ہے کہ پرچی میں جس کا نام نکل آیا، اُسے عمرہ وغیرہ کا ٹکٹ دیا جائے گا اور جن کا نام نہ نکلا، ان کی رقم ضائع ہو گئی یعنی واپس نہیں کی جائے گی، یہ بھی جوئے کی صورت ہے، کیونکہ ہر حصہ لینے والے شخص کے متعلق یہ امکان ہے کہ جیتنے کی صورت میں عمرہ و غیرہ کے ٹکٹ کے طور پر دوسروں کا مال اس کے پاس آجائے گا اور ہارنے کی صورت میں اپنی رقم دوسرے کے پاس چلی جائے گی۔ نیز جوا کے باوجود عمرہ کمیٹی وغیرہ کے مقدس نام پر ایسا کام کرنا اور زیادہ شنیع و قبیح ہے کہ اس پُر فریب نام کے دھوکے میں مبتلا ہو کر سادہ لوح عوام جوئے والے پہلو سے غافل ہو جاتی ہے اور ثواب کا کام سمجھتے ہوئے شمولیت اختیار کر لیتی ہے، لہذا یہ جوا کی دیگر صورتوں سے زیادہ بری ہے۔
فتاوی بحر العلوم میں ہے: ”( قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کے لیے ) معاوضہ میں روپے کی جگہ سامان یا حج و زیارت رکھنا یا اس کا نام انعام رکھ دینے سے شے کی حقیقت نہیں بدلے گی۔ جوئے میں یہی ہوتا ہے کہ زائد رقم کی امید میں ہر آدمی اپنی رقم لگاتا ہے، مگر پوری رقم وہ لیتا ہے جس کا پانسہ آتا ہے ۔ “ (جوئے کی رائج صورتیں اور احکام، صفحہ52، مجلس افتا (دعوت اسلامی))
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-873
تاریخ اجراء:10ربيع الاول6144ھ/04ستمبر 2025ء