
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا سوال یہ ہے کہ ویڈیو ایڈیٹنگ اور گرافک ڈیزائننگ کی نوکری، آن لائن کام کرسکتے ہیں؟ ان دونوں شعبوں میں کلائنٹ ہمیں کام کرنے کےلیے دے گا اور ہم اسے ایڈیٹ کریں گے۔
ہماری طرف سے اس میں کوئی غیر شرعی چیز استعمال نہیں ہوتی جیسا کہ میوزک اور بے پردگی وغیرہ، لیکن یہ ویڈیوز ہم سےلے لینے کے بعد کلائنٹ ان کو گناہ کے کام میں استعمال کرے یا نہ کرے، اس کی مرضی ہے مثلاً میوزک ایڈ کرے یا یوٹیوب پر مونوٹائز والے چینل پر اپ لوڈ کرے،
لیکن ہم سے لے لینے کے بعد یہ بات یاد رہے کہ دنیا جہاں سے کلائنٹس ہماری سی وی دیکھنے کے بعد ہم سے رابطہ کر تے ہیں اور یہ رابطہ فقط کام کرنے تک ہوتا ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا، کہ ہمارا کلائنٹ ان کو گناہ کے کام میں استعمال کرے گا بھی یا نہیں!
بلکہ کئی ویڈیوز ہمارے کام کے بعد بغیر کسی چیز کے ایڈ کیے ہی استعمال ہوتی ہیں مارکیٹ سے ہمیں اندازہ ہوجاتاہے۔تو کیا اس کام سے کمائے گئے پیسے حلال ہوں گے یا نہیں؟ کیونکہ ہماری طرف سے کوئی غیر شرعی غلطی نہیں ہوتی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ویڈیو ایڈیٹنگ یا پھر گرافک ڈیزائننگ کر کے ویڈیوز آگے دینا شرعاً جائزہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی شرعاً جائز ہے، کہ اجارے کا انعقاد ویڈیو ایڈیٹنگ کرنے پر ہواہے اور فی نفسہٖ ویڈیو ایڈیٹنگ کوئی ایسی چیز نہیں جو گناہ کے لیے متعین ہو۔
ویڈیو ایڈیٹنگ کروانے والے ان ویڈیوز کو گناہ کے کام میں استعمال کریں تویہ ان کا اپنا فعل ہے اور وہ اس میں صاحب اختیار ہیں، لہٰذا ایڈیٹنگ کر کے دینےوالے کے سَر کوئی الزام نہیں ہوگا، جبکہ وہ ان کے فعل پر تعاون کی نیت نہ رکھتا ہو، کہ قرآن پاک میں واضح ارشادموجود ہے کہ کوئی بھی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
نوٹ: یہ یادرہے کہ ایسی ویڈیوز جن میں میوزک، بے پردگی یا پھر کسی بھی قسم کی غیر شرعی چیز شامل ہو انہیں ایڈیٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى
ترجمہ کنز العرفان: کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔(پارہ 08، سورۃ الانعام 06، آیت 164)
تفسیر بغوی میں اس آیت کے تحت ہے:
أي لا يؤاخذ أحد بذنب غيره
ترجمہ: مطلب یہ ہے کہ ایک کے گناہ کے سبب دوسرے سے مؤاخذہ نہ ہو گا۔ (تفسیر بغوی، جلد 03، صفحہ 212، دار طيبة للنشر و التوزيع)
ہمارے مسئلے کی بالکل قریبی نظیر کے متعلق محیط برہانی اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
و إن استأجره ليكتب له غناء بالفارسية أو بالعربية فالمختار أنه يحل لأن المعصية في القراءة. كذا في الوجيز للكردري
ترجمہ: اگر کسی نے بندے کو اس لئے اجیر رکھا، تاکہ اس کے لئے فارسی یا عربی میں گانا لکھ دے تو مختار یہ ہے کہ اجارہ حلال ہے؛ کیونکہ معصیت اس کو پڑھنے میں ہے(نہ کہ لکھنے میں) ایسا ہی امام کردری کی وجیز میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الاجارہ، جلد 4،صفحہ 450، دار الفکر، بیروت)
منحۃ السلوک میں مزید یہ الفاظ ہیں:
وقد يقرأ وقد لا يقرأ
ترجمہ: کیونکہ معصیت اس کو پڑھنے میں ہے (نہ کہ لکھنے میں) اوراسے پڑھا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ (منحۃ السلوک، کتاب الصلاۃ، صفحہ 97، مطبوعہ قطر)
فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا ”کفر وشرک کی اشاعت کرنے والے کفار کے مذہبی رہنماؤں اور شراب بیچنے والوں اور بازاری عورتوں کو مکان کرائے پر دینا کیسا؟
تو جواب ارشاد فرمایا: اس نے تو سکونت وزراعت پر اجارہ دیاہے نہ کسی معصیت پر اور رہنا، بونا فی نفسہٖ معصیت نہیں۔ اگر چہ وہ جہاں رہیں معصیت کریں گے، جو رزق حاصل کریں معصیت میں اٹھائیں گے، یہ ان کا فعل ہے جس کا اس شخص پر الزام نہیں
﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ ترجمہ: کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 441، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
محيط برہانی میں ہے:
الإعانة على المعاصي والفجور والحث عليها من جملة الكبائر
ترجمہ: گناہوں اور فسق و فجور پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (المحیط البرھانی، کتاب الشھادات، الفصل الثالث، جلد 08، صفحہ 312، دار الكتب العلميہ، بيروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: IQL-0152
تاریخ اجراء: 28 جمادی الاخری 1446ھ / 31 دسمبر2024ء