مسجد کی بجلی سے واٹر پلانٹ چلانے کا شرعی حکم

مسجد سے متصل راستے میں واٹر فلٹر پلانٹ لگانا مسجد کی بجلی استعمال کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ہماری مسجد میں ایک فرد نے اپنی ذاتی حیثیت سے پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب کروایا ہے اور مسجد کی موٹر سے دو نلکے باہر سڑک کی جانب لگوائے گئے ہیں تاکہ عام لوگ اس صاف پانی سے مستفید ہوسکیں۔ کیا شرعاً مسجد کے پانی کو اس طرح باہر عوامی استعمال کے لیے فراہم کرنا جائز ہے تاکہ یہ کارِ خیر صدقۂ جاریہ بنے؟ اگر شریعت میں مسجد کے پانی کو باہر کی طرف اس انداز سے فراہم کرنا درست نہ ہو، تو کیا کوئی ایسی متبادل صورت ممکن ہے کہ باہر نکلنے والے پانی کے تناسب سے موٹر کی بجلی کا تخمینہ لگا کر لوگ مل کر مسجد میں اُتنا بل جمع کروادیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مسجد میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگوانا کہ مسجد کےنمازی صاف پانی پئیں، یہ باعث ثواب اور درست عمل ہے، لیکن بیان کردہ تفصیل کے مطابق راہگیروں اور محلے داروں کے لیے پلانٹ لگوانا کہ اُسے مسجد کی جگہ پر لگوایا جائے اور پھر مسجد کی ہی بجلی اور پانی کو استعمال کیا جائے، یہ ناجائز اور گناہ ہے، کیونکہ مسجد کی جگہ ،موٹر اور ٹینکی، سب مسجد کے کاموں کے لیے ہی وقف ہوتی ہیں، انہیں کسی دوسرے مقصد یعنی عوامی فلٹر پلانٹ کے لیے استعمال کرنا وقف کا خلافِ مصرف استعمال ہے اور وقف کا خلافِ مصرف استعمال جائز نہیں، نیز وقف کے خلاف مصرف استعمال سے تاوان لازم ہوتا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگرچہ یہ نیکی اور خیر پر مشتمل فلاحی کام ہے، لیکن مساجد اس طرح کے عام فلاحی کاموں کے لیے نہیں ہوتی، چونکہ بیان کردہ انداز میں فلٹریشن پلانٹ لگانا شرعاً درست نہ تھا، لہذا جن کی رضا مندی سے یہ کام ہوا، اُن سب پر مسجد کو ہونے والے نقصان کا تاوان لازم ہے۔

شرعی نقطہ نظر سے یہ متبادل حل سمجھنا کہ موٹر پر خرچ ہونے والی بجلی کا بل ادا کر دیا جائے گا، تو یہ بھی شرعاً معتبر اور جائز نہیں، کیونکہ بل اگرچہ دے دیا جائے گا، لیکن موٹر اور ٹینکی وغیرہ تو مسجد کی ہی استعمال ہو گی، جو کہ مسجد کے لیے مخصوص ہے، نہ کہ اِس پلانٹ کے لیے، لہذا اِس اعتبار سے اُن دونوں چیزوں کا غیر محل میں استعمال ہو گا، جو کہ شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔ ہاں اگر مسجد کے پڑوس میں کسی شخص کے ذاتی گھر پر اُس کی اجازت سے ایسا پلانٹ لگا لیا جائے تو اِس کی اجازت ہے۔

موقوفہ چیز کو غیر محل میں استعمال کرنے کی ممانعت کے متعلق فتاویٰ عالَم گیری میں ہے:

متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ۔

ترجمہ: مسجد کے متولی کے لیے ہرگز جائز نہیں کہ وہ مسجد کا چراغ اپنے گھر لے جائے۔(اور ذاتی استعمال کرے۔) (الفتاوى الھندیۃ، جلد 02، صفحہ 462، مطبوعہ کوئٹہ)

وقف کواصل حالت پر رکھنا واجب ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1005ھ / 1596ء) لکھتے ہیں:

الواجب ابقاء الوقف علٰی ماکان علیہ۔

ترجمہ: وقف کو اپنی اصل حالت پر باقی رکھنا واجب ہے۔ (النهر الفائق شرح كنز الدقائق، جلد 3، صفحہ 320، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

جو جگہ مسجد کے لیے وقف ہے، اس کو مسجد کے کاموں میں ہی استعمال کرنا ضروری ہے۔ امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ(وِصال:1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: جو زمین متعلق مسجد ہے، وہ مسجد ہی کے کام لائی جاسکتی ہے اور اس کے بھی اسی کام میں جس کے لیے واقف نے وقف کی، وقف کو اس کے مقصدسے بدلنا جائز نہیں۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 16، صفحہ 547، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (وِصال: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: مسجد کی اشیا، مثلاً لوٹا، چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے، مثلاً لوٹے میں پانی بھر کر اپنے گھر نہیں لے جاسکتے، اگرچہ یہ ارادہ ہو کہ پھر واپس کر جاؤں گا۔ اُس کی چٹائی اپنے گھر یا کسی دوسری جگہ بچھانا ناجائز ہے۔ یوہیں مسجد کے ڈول، رسی سے اپنے گھر کے ليے پانی بھرنا یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا ناجائز ہے۔ (بہار شریعت، جلد 2، حصہ 10، صفحہ 561، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

مسجد کے پانی اور بجلی کے استعمال کے متعلق خلیلِ ملت مفتی محمد خلیل خان قادری برکاتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1405ھ / 1985ء) سے سوال ہوا، تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواباً لکھا: ” مسجد کی اشیاء صرف مسجد میں استعمال ہوسکتی ہیں، مسجد کے علاوہ کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے۔“ (فتاویٰ خلیلیہ، جلد 2، صفحہ 579، مطبوعہ لاھور)

جو پانی مسجد کی ٹینکی میں آ گیا، وہ مسجد کی مِلک ہو گیا، چنانچہ اِسی کتاب میں ہے: سرکاری نل سے آنے والا پانی اگر مسجد کی ٹنکی میں آچکا، تو مسجد کی ملک ہوگیا اسے اب گھریلو استعمال میں لانا جائز نہیں۔ (فتاویٰ خلیلیہ، جلد 3، صفحہ 538، مطبوعہ لاھور)

جو دیوارِ مسجد کا نقصان ہوا، نیز بجلی اور پانی کو خلافِ مصرف خرچ کیا گیا، اُن سب کا تاوان ادا کرنا لازم ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: متولیوں کو کسی صرفِ جدید کے احداث کی اجازت نہیں ہوسکتی، اگر بلا مسوغ شرعی اس میں مال وقف صرف کریں گے، وہ صرف ان کی ذات پر پڑے گا اور جتنا مال مسجد اس میں خرچ کیا اس کا تاوان ان پر لازم ہوگا۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 16، صفحہ 235، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مالِ وقف میں ناجائز تصرف کرنے والے پر تاوان کے لازم ہونے کے متعلق فتاوی عالَم گیری میں ہے:

ليس للقيم أن يتخذ من الوقف على عمارة المسجد مشرفا من ذلك ولو فعل يكون ضامنا۔

ترجمہ: متولی کےلیے مسجد کی عمارت پر مالِ وقف سے بالا خانہ بنانا جائز نہیں اگر وہ بنائے گا، تو تاوان دینا ہوگا۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد 02، صفحہ 462، مطبوعہ كوئٹہ)

جو پلانٹ لگایا گیا، اُسے ختم کرنا ضروری ہے۔ ”فتاوی رضویہ“ میں ہے:جامع مسجد بناکر اس مسجد کے ایک حصہ زمین میں اس کا زینہ بنایا، یہ بھی ناجائز ہے کہ مسجد بعد تمامی مسجدیت کسی تبدیل کی متحمل نہیں، واجب ہے کہ اسے بھی زائل کرکے اسے خاص مسجد ہی رکھیں۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 16، صفحہ 488، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

جتنا عرصہ پلانٹ لگا رہا، اُتنی دیر مسجد کے اُس حصہ کو استعمال کرنے کا کرایہ ادا کرنا بھی لازم ہے، چنانچہ اِسی میں ہے: جتنے دنوں اُس نے اپنے تصرف میں رکھا، اتنے دنوں کا کرایہ جو حصہ وقف کا نرخ بازار سے ہوا، اتنا تاوان اُس پر لازم ہوگا کہ وقف کے لیے ادا کرے۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 16، صفحہ 457، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مسجد کی بجلی کا بل اپنی جیب سے ادا کر دینے کے باوجود بھی بجلی کی چیزوں کا ذاتی استعمال جائز نہیں ہے۔ ”فتاوی فقیہ ملت“ میں ہے:مسجد کا پنکھا جبکہ اوقات نماز میں استعمال کرنے کےلیے ہے، تو اسے کرایہ پر دینا جائز نہیں، تو صرف بجلی کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرکے اسے استعمال کرنا بدرجہ اولی جائز نہیں۔ (فتاوی فقیہ ملت، جلد 1، صفحہ 191، مطبوعہ شبیر برادرز)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9363

تاریخ اجراء: 16 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 13 جون 2025ء