
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
بکر نے کہا: " فلاں طریقہ فلاں صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت ہے۔" کیا ایسا کہنا درست ہے؟ یعنی لفظ ”سنت“ کو صحابہ کرام علیہم الرضوان کی طرف نسبت دینا کیسا؟ رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سنت کے لغوی معنی ”طریقہ خاص اور ضابطہ“ کے ہیں، اور لفظِ سنت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے طریقہ مبارکہ کےساتھ خا ص نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کےطریقے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور لفظِ سنت کی نسبت صحابہ کرام علیہم الرضوان کی جانب کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت بھی ہے، اسی طرح تابعین و علمائے دین کے طریقے کے لیے بھی سنت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
القاموس الوحید میں ہے”السنۃ: طریقہ خاص، ضابطہ، سیرت، فطرت، عادت ومزاج۔“(القاموس الوحید، صفحہ 811، مطبوعہ کراچی)
سنن ابی داؤد میں حدیث پاک مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين
ترجمہ: تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4607، ج 4، ص 200، المكتبة العصرية، بيروت)
فتاوی رضویہ میں ہے ”حفظ قرآن فرض کفایہ ہے اور سنت صحابہ وتابعین وعلمائے دین متین رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین اور منجملہ افاضل مستحبات عمدہ قربات منافع وفضائل اس کے حصر و شمار سے باہر۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 642، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4017
تاریخ اجراء: 18 محرم الحرام 1447ھ / 14 جولائی 2025ء