بغیر نیّت ہاتھ دھونے سے پانی مستعمل ہوگا؟

باوضو شخص بغیر ثواب کی نیت سے ہاتھ دھوئے تو پانی کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک شخص باوضو ہے،اب اگر وہ ٹھہرے پانی میں ہاتھ دھونے کی نیت سے دوبارہ ہاتھ ڈالےاور یہ ڈالنا ثواب کا کام ہو تو وہ پانی مستعمل ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ کام ثواب کا تو ہو لیکن اس نے اس کام میں ثواب کی نیت نہ کی ہو اور اب ہاتھ ڈالے تو کیا اب بھی مستعمل ہو جائے گا؟ مثلا: کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنت ہے، اس نے سنت کی نیت نہیں کی بلکہ ویسے ہی ہاتھوں پر میل کچیل تھی، اسی وجہ سے اس کو صاف کرنے کے لئے ہاتھ ڈالا، تو کیا تب بھی پانی مستعمل ہو جائے گا؟ جبکہ پہلے سے باوضو تھا۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر کسی باوضو شخص نے کھانا کھانے سے پہلے یا کھانا کھانے کے بعد یا ویسے ہی ہاتھ منہ صاف کرنے کے لئے ہاتھ دھوئے اور ادائے سنت کی نیت نہ تھی تو اس سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔

مستعمل پانی کے متعلق تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے

ما (استعمل لِ) اجل (قربۃ) أی ثواب۔۔۔ (أو) لاجل (رفع حدث)

 ترجمہ: (مائے مستعمل سے مراد وہ پانی ہے) جس کو نیکی یعنی ثواب کے حصول کے لئے، یا حدث کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، صفحہ 33، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

 فتاوی رضویہ میں ہے ”مائے مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر نجاست حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا، یعنی انسان کے کسی ایسے پارہ جسم کو مس (ٹَچ) کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی، یا ظاہر بدن پر اُس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اُسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا اور یوں اسقاط واجب تطہیر یا اقامت قربت کرکے عضو سے جُدا ہوا اگرچہ ہنوز کسی جگہ مستقر نہ ہوا بلکہ روانی میں ہے۔۔۔ با وضو آدمی نے اعضاء ٹھنڈے کرنے یا میل دھونے کو وضو، بے نیتِ وضو علی الوضو کیا، پانی مستعمل نہ ہوگا کہ اب نہ اسقاطِ واجب ہے نہ اقامتِ قربت۔۔۔ (اسی طرح) باوضو نے کھانا کھانے کو یا کھانے سے بعد یا ویسے ہی ہاتھ منہ صاف کرنے کو ہاتھ دھوئے کُلّی کی اور ادائے سنّت کی نیت نہ تھی مستعمل نہ ہوگا کہ حدث وقربت نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 43 تا 46، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4280

تاریخ اجراء: 06 ربیع الآخر 1447ھ / 30 ستمبر 2025ء