کیا بیمار شخص کو کوئی دوسرا وضو کروا سکتا ہے؟

بیمار شخص کو کوئی دوسرا وضو کروا سکتا ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9100

تاریخ اجراء:16 ربیع الاوَّل 1446 ھ / 21 ستمبر  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ میری والدہ شدید بیمار ہیں۔ خود اٹھنا اور چوکی پر بیٹھ کر وضو کرنا بہت تکلیف دہ اور مشکل ہے۔ کیا میری بہن انہیں وضو کروا سکتی ہیں؟ یعنی بہن اپنے ہاتھوں سے والدہ کا چہرہ، بازو اور قدم دھوئے۔ کیا یوں وضو ہو جائے گا؟ یا خود اپنے ہاتھوں سے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حکم شرعی یہ ہے کہ بلاعذر کسی دوسرے سے وضو میں یوں مدد لینا کہ دوسرا شخص اِس وضو کرنے والے کے چہرے، ہاتھوں، بازوؤں اور قدموں کو دھوئے، یہ آدابِ وضو کے برخلاف اور ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اگر کوئی شخص بیمار ہو،  جیسا کہ آپ کی والدہ کی صورتِ حال ہے  یا کسی بھی معتبر عذر کے سبب اُس کے لیے خود وضو کرنا دشوار ہو اور کوئی دوسرا اُسے مکمل وضو کروا دے، تو یوں مدد لینا بالکل جائز ہے۔ اِس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

   تنویر الابصار والدر المختار“ میں ہے: (‌و عدم ‌الاستعانة بغيره) إلا لعذر و أما استعانته عليه الصلاة و السلام بالمغيرة فلتعليم الجواز۔ ترجمہ: آدابِ وضو میں سے یہ بھی ہے کہ وضو کرنے والا کسی دوسرے سے بلاعذر مدد طلب نہ کرے، ہاں اگر عذر ہو تو  بالکل درست ہے۔ نبی اکرم کا حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے وضو کرنے میں خدمت چاہنا، اِس عمل کے جائز ہونے کی خبر دینے کے لیےتھا۔(تنویر الابصار و در المختار مع رد المحتار، جلد 01، کتاب الطھارۃ، صفحہ 420، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)

   یاد رہے کہ جس انداز میں بلاعذر مدد لینا مکروہ  اور ناپسندیدہ ہے، اُس کی صورت یہ ہے کہ دوسرا اعضاءِ وضو کو دھوئے، یعنی وضو کرنے والا اپنے ہاتھوں کو استعمال نہ کرے، بلکہ دوسرا شخص ہاتھوں، بازوؤں اور قدموں  کو دھوئے،  لہذا اگر کوئی دوسرے سے یوں مدد لے کہ وضو کے لیے کسی سے پانی طلب کرے یا کنویں، نَل  سے پانی بھروا لے  یا دوسرا پانی بہائے اور یہ شخص افعالِ وضو خود ہی کرے،  تو یوں وضو میں مدد لینا  بلاعذر بھی ہو تو  مکروہ نہیں، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ / 1836ء) نے ”الاستعانۃ فی الوضو بالغیر“ کے عنوان سے”مطلب“ قائم فرمایا اور اِس موضوع پر تفصیلی کلام کرنے کے بعد حاصل کلام یوں لکھا: ”حاصله أن الاستعانة في الوضوء إن كانت بصب الماء أو استقائه أو إحضاره فلا كراهة بها أصلا ولو بطلبه وإن كانت بالغسل والمسح فتكره بلا عذر“ ترجمہ: حاصل کلام یہ ہے کہ وضو میں دوسرے سے مدد لینا، اگر یوں ہو کہ دوسرا پانی بہائے یا کنویں سے پانی بھر دے یا کسی برتن میں پانی  پیش کر دے، تو یہ استعانت اصلاً ہی مکروہ نہیں، اگرچہ خود ایسی مدد طلب کرے، ہاں اگر استعانت  دوسرے شخص کے دھونے اور مسح کرنے کی صورت میں ہو، تو اگر یہ بلاعذر ہے، تو مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 01، کتاب الطھارۃ، صفحہ 422، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)

   صورتِ مسئولہ پر صریح حکم شرعی بیان کرتے ہوئے علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 616ھ / 1219ء) لکھتےہیں: ”الرجل المريض إذا لم يكن له امرأة ولا أمة وله ابن أو أخ، وهو لا يقدر على الوضوء، قال: يوضئه ابنه أو أخوه ۔۔۔ و المرأة المريضة إذا لم يكن لها زوج ومن لا يقدر على الوضوء ولها أخت قال توضئھا الاخت“ ترجمہ: ایسا مریض مرد کہ جس کی بیوی یاوالدہ نہ ہو، البتہ بیٹا یا بھائی ہو اور وہ مریض وضو کرنے پر قادر نہ ہو تو اُسے اُس کا بیٹا یا بھائی وضو کروائے گا۔ اِسی طرح بیمار عورت کہ جس کا شوہر نہ ہو اور وہ عورت وضو پر قادر نہ ہو، البتہ اُس کی بہن موجود ہو ، تو بہن اُسے مکمل وضو کروائے گی۔(المحیط البرھانی، جلد 01، کتاب الطھارۃ، صفحہ 45، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   فتاوٰی عالَم گیری میں ہے: ‌المرأة ‌المريضة إذا لم يكن لها زوج وعجزت عن الوضوء ولها ابنة أو أخت توضئها۔ ترجمہ: ایسی بیمار عورت کہ جس کا شوہر نہ ہو اور وہ وضو سے عاجز ہو، لیکن اُسی کی بیٹی یا بہن موجود ہو، تو وہ اُسے وضو کروائے گی۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 50، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم