
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
وضو میں سر کا مسح کرنے کے بعد گردن اور کانوں کے مسح کے لیے ہاتھ دوبارہ تر کرنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
وضو میں سر کا مسح کرنے کے بعد گردن اور کانوں کے مسح کے لیے ہاتھ دوبارہ تر کرنا ضروری نہیں ہے جبکہ پہلی تری موجودہو۔ لیکن اگر کسی نے پہلی تری موجود ہونے کے باوجود دوبارہ ہاتھ تر کرلیے تو اس میں حرج بھی نہیں ہے، بلکہ یہ اچھا ہے کہ اس میں ان فقہاء کرام کے نزدیک بھی سنت پر عمل ہے جو فرماتے ہیں کہ کانوں کے مسح کے لیے دوبارہ ہاتھ تر کیے جائیں۔ نیزیہ یاد رہے کہ اگر سر کے مسح کے دوران انگلیوں کی تری ختم ہوگئی تو اب کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا ضروری ہوجائے گا۔
مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے
"و" يسن "مسح الأذنين و لو بماء الرأس" لأنه صلى الله عليه و سلم غرف غرفة فمسح بها رأسه و أذنيه فإن أخذ لهما ماءا جديدا مع بقاء البلة كان حسنا
ترجمہ: اور کانوں کا مسح کرنا سنت ہے اگرچہ سر کے پانی سے ہی ہو ۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چلو لیا اور اس سے سر اور کانوں کا مسح کیا، اور اگر پہلے سے تری موجود ہونے کے باوجود ان کے لیے نیا پانی لیا تو یہ اچھا ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 33، المكتبة العصرية)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أقول: مقتضاه أن مسح الأذنين بماء جديد أولى مراعاة للخلاف؛ ليكون آتيا بالسنة اتفاقا
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ علماء کرام کی عبارات کا مقتضی یہ ہے کہ اختلاف کی رعایت کی وجہ سے سر کا مسح جدید پانی سے کرنا بہتر ہے تاکہ وہ بالاتفاق سنت کو بجا لانے والا قرار پائے۔(رد المحتار علی الدر المختار، ج 1، ص 121، دار الفکر، بیروت)
فتح القدیرمیں ہے
و أما ما روي أنه - صلى الله عليه و سلم - أخذ لأذنيه ماء جديدا فيجب حمله على أنه لفناء البلة قبل الاستيعاب توفيقا بينه و بين ما ذكرنا، و إذا انعدمت البلة لم يكن بد من الأخذ كما لو انعدمت في بعض عضو واحد
ترجمہ: اور وہ جوروایت کیاگیاہے کہ حضورصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مبارک کانوں کے لیے نیا پانی لیا تو اس روایت اور ہماری ذکرکردہ روایت میں تطبیق دینے کے لیے اسے اس پرمحمول کرنا واجب ہے کہ یہ استیعاب یعنی گھیرنے سے پہلے تری کے فناء ہونے کی وجہ سے تھا اور جب تری ختم ہوجائے تو اب نیا پانی لیناضروری ہے جیسا کہ اگرکسی ایک عضو کے بعض حصے میں تری ختم ہوجائے تو دوبارہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ (فتح القدیر، کتاب الطھارات، ج 01، ص 28، کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3888
تاریخ اجراء: 05 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ /02 جون 2025 ء