ہاتھ کے ذریعے پانی کا ٹھنڈا گرم چیک کرنے سے پانی مستعمل ہوگا؟

ٹھنڈا یا گرم چیک کرنے کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل ہوجائے گا؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-638

تاریخ اجراء:15 رجب المرجب1446ھ/16 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر مرد یا عورت میں سے کسی  نے صرف پانی چیک کرنے کی لیے کہ پانی ٹھنڈا ہے یا گرم، پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ پانی  یا  تو  عضو سے حدث(یعنی حکمی ناپاکی) کو دور کرنے کے سبب مستعمل ہوتا ہے، یا قُربت یعنی ثواب  کی نیت سے استعمال کرنے کے سبب مستعمل ہوتا ہے، جس صورت میں نہ عضو سے حدث کا دور ہونا پایا جائے  اور نہ ہی قربت کی نیت ہو، تو وہاں پانی بھی  مستعمل نہیں ہوتا۔ پھر قربت کے لیے استعمال میں تو قربت کی نیت ہونا ضروری ہوتا ہے، مگر  حدث  کے دور ہونے  کے لیے نیت شرط نہیں ہوتی، لہذا بغیر نیت کے بھی حدث دور ہوجاتا ہے۔ اب سوال کا جواب یہ ہے  کہ:

   (۱) مرد و عورت میں سے جو بھی بے وضو، یا غسل فرض ہونے کی حالت میں اپنا بے دُھلا ہاتھ قلیل پانی(جیسے بالٹی، ٹب یا  لوٹے وغیرہ) میں پانی کو چیک کرنے کے لیے ڈالے کہ پانی  ٹھنڈا ہے یا گرم، تو اس سے پانی ضرور  مستعمل ہو جائے گا، کیونکہ  حدث دور ہونے کیلئے نیت ضروری نہیں، لہٰذا پانی کے گرم یا ٹھنڈا ہونے کو جاننے کے لیے بھی  پانی میں     ہاتھ ڈالنے سےاُس ہاتھ سے خود بخود  حدث کا دور ہونا پایا جائے گا، لہٰذا پانی مستعمل ہوجائے گا۔

   (۲)اور  جو ایسا ہو کہ اس پر غسل فرض نہ ہو اور  با وضو بھی  ہو  اور اب وہ پانی کو چیک کرنے کی نیت سے  پانی میں ہاتھ ڈالے، یاہاتھ پہلے پانی سے دھو لیا ہو اور پھر حدث لاحق ہونے سے پہلے   پہلے  پانی کے گرم یا ٹھنڈے ہونے کومعلوم کرنے کے لیے اس میں ہاتھ ڈالے تو  پانی مستعمل نہیں ہوگا  کہ گرم ٹھنڈا معلوم کرنا کوئی قربت نہیں۔

   مستعمل پانی کیا ہوتا ہے، اس کے متعلق تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ”ماء (استعمل ل) اجل (قربۃ) أی ثواب۔۔۔ (أو) لاجل (رفع حدث)“ ترجمہ: (مائے مستعمل سے مراد وہ پانی ہے) جس کو  نیکی یعنی ثواب کے حصول کیلئے، یا حدث کو  دور کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔ (تنویر الابصار مع درالمختار، جلد 1، کتاب الطھارۃ، صفحہ 385، دارالمعرفۃ،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”مائے مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر نجاست حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا ،یعنی انسان کے کسی ایسے پارہ جسم کو مس(ٹَچ) کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی، یا ظاہر بدن پر اُس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اُسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا اور یوں اسقاط واجب تطہیر یا اقامت قربت کرکے عضو سے جُدا ہوا اگرچہ ہنوز کسی جگہ مستقر نہ ہوا بلکہ روانی میں ہے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد2، صفحہ 43، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بے وضو یا بے غسلے شخص نے پانی کے ٹھنڈا  یا گرم ہونے کو جاننے کے لئےبے دُھلا ہاتھ  پانی میں    ڈالا تو پانی مستعمل ہوجائے گا، جیسا کہ پانی سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے اس میں ہاتھ ڈالنے سے پانی مستعمل ہوجاتا ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’إذا أدخل المحدث أو الجنب أو الحائض التي طهرت يده۔۔۔في الإناء أو رجله للتبرد فإنه يصير مستعملا‘‘ ترجمہ: جب بے وضو یا جنبی شخص یا حائضہ عورت جو حیض سے پاک ہوچکی ہو،اپنا ہاتھ  یا پاؤں برتن میں ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے داخل کردے تو پانی مستعمل ہوجائے گا۔ (الفتاوی الھندیہ، جلد1، صفحہ 22، دارالفکر، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ’’مُحدث نے تمام یا بعض اعضائے وضو دھوئے اگرچہ بے نیت وضو محض ٹھنڈ یا میل وغیرہ جُدا کرنے کے لیے یا اُس نے اصلا کوئی فعل نہ کیا ، نہ اُس کا قصد تھا بلکہ کسی دوسرے نے اُس پر پانی ڈال دیا جو اُس کے کسی ایسے عضو پر گزرا جس کا وضو یا غسل میں پاک کرنا ہنوز اس پر فرض تھا مثلاً محدث کے ہاتھ یا جُنب کی پیٹھ پر تو ان سب صورتوں میں شکل اول کے سبب پانی مستعمل ہوگیا کہ اس نے محل نجاست حکمیہ سے مس کرکے اُتنے ٹکڑے کی تطہیر واجب کو ذمہ مکلف سے ساقط کردیا۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد 2، صفحہ 43، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   حدث کے دور ہونے سے پانی کے مستعمل ہونے کیلئے حدث دور کرنے کی نیت شرط نہیں، بغیر نیت بھی خود بخود حدث دور ہونے سے مستعمل ہوجائے گا، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی امجدیہ میں ارشاد  فرماتے ہیں: ”پانی کےمستعمل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک وضو یا غسل میں نیت شرط نہیں، لہذا جس حصہ بدن کے ساتھ حدث کا تعلق ہے، وہ جب پانی سے ملاقی ہوگا(یعنی ملے گا)، تو اتنے سے حدث مُرتفع (یعنی دور)ہوجائے گااورجب اس پانی نے رفع حدث کیا تو مستعمل   ہوگیا کہ مستعمل ہونے کے لئے نیت رفع حدث (یعنی حکمی ناپاکی دور کرنے کی نیت) شرط نہیں۔(فتاوٰی امجدیہ، جلد1، صفحہ 14، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   با غسل اور  با وضو شخص نے  یا جس کا ہاتھ دُھلا ہوا ہو اور وہ پانی کو چیک کرنے کیلئے  ہاتھ ڈالے ،تو چونکہ نہ حدث کادور ہونا ہوگا اور نہ یہ  قربت ہوگی،لہذا پانی مستعمل نہیں ہوگا،جیسا کہ  فتاوی رضویہ میں ہے: ”با وضو آدمی نے اعضاء ٹھنڈے کرنے یا میل دھونے  کو وضو، بے نیتِ وضو علی الوضو کیا، پانی مستعمل نہ ہوگا کہ اب نہ اسقاطِ واجب ہے نہ اقامتِ قربت۔۔ (اسی طرح) باوضو نے کھانا کھانے کو یا کھانے سے بعد یا ویسے ہی ہاتھ منہ صاف کرنے کو ہاتھ دھوئے کُلّی کی اور ادائے سنّت کی نیت نہ تھی مستعمل نہ ہوگا کہ حدث وقربت نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 45، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اگر دُھلا ہوا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصہ(قلیل پانی میں) پڑ جائے تو حَرَج نہیں(یعنی پانی مستعمل نہیں ہوگا)۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 333، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم