استنجا کتنی انگلیوں سے کرنا چاہئے؟

استنجا کتنی انگلیوں سے کرنا چاہئے

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

بڑا استنجا کرنے کی حاجت ہو، تو کتنی انگلیوں سے استنجا کرنا چاہئے؟ کیا تین انگلیوں سے استنجاء کرنا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

تین انگلیوں سے استنجا کرنا ضروری یا لازمی نہیں بلکہ فقہائے کرام نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ حسب ضرورت ایک دو یا تین انگلیوں سے استنجا کیا جائے تاکہ اچھی طرح صفائی حاصل ہو جائے کیونکہ بعض اوقات ایک یا دو انگلیوں سے بھی صفائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر تین سے کم انگلیوں سے صفائی ہو جاتی ہے تو زائد انگلیوں کو استعمال کرنا منع ہے کیونکہ کسی پاک چیز کو بلا اجازت شرعی ناپاک کرنا گناہ کا کام ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

”(و أما) كيفية الاستنجاء فينبغي أن يرخي نفسه إرخاء تكميلا للتطهير، و ينبغي أن يبتدئ بأصبع، ثم بأصبعين ثم بثلاث أصابع؛ لأن الضرورة تندفع به، و لا يجوز تنجيس الطاهر من غير ضرورة“

یعنی استنجا کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود کو طہارت کے لئےڈھیلا چھوڑ دے اور مناسب ہے کہ ایک انگلی سے شروع کرے پھر دو انگلیوں سے پھر تین انگلیوں سے کیونکہ ضرورت ان سے پوری ہوجاتی اور بلا ضرورت پاک چیز کو ناپاک کرنا جائز نہیں۔ (بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 208، مطبوعہ: بیروت)

محیط برہانی میں ہے:

”و يستنجي بأصبع أو أصبعين أو ثلاث، و لا يستعمل جميع الأصابع لأن ذلك الموضع لا تتسع فيه الأصابع كلها، فلو استعمل الأصابع كلها يخرج الماء النجس من بين أصابعه، و يسيل على فخذيه فينجس به فخذاه و عسى لا يشعر به. أو نقول المقصود يحصل بالثلاث، ففي الزيادة على الثلاث استعمال النجاسة بلا ضرورة“

یعنی ایک انگلی، دو انگلیوں یا تین انگلیوں سے استنجا کرے اور تمام انگلیاں استعمال نہ کرے کیونکہ اس جگہ میں تمام انگلیوں کے استعمال کی گنجائش نہیں، پس اگر تمام انگلیاں استعمال کرے گا ، تو ناپاک پانی اس کی انگلیوں کے درمیان سے نکلے گا اور اس کی رانوں پر بہہ جائے گا، تو رانیں نجس ہوجائیں گی اور اس کو معلوم بھی نہیں ہوگا یا ہم کہتے ہیں کہ مقصود تین انگلیوں سے پورا ہوجاتا ہے، لہٰذا تین سے زائد انگلیاں استعمال کرنے میں بلا ضرورت نجاست کو استعمال کرنا ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد 1، صفحہ 44، مطبوعہ: بیروت)

مجمع الانہر میں ہے:

”(يغسل يديه أولا ثم المخرج ببطن إصبع) واحدة إن حصل به الإنقاء. (و إصبعين) إن احتيج إلى الزيادة (أو ثلاث) إن احتيج إلى أزيد من يده اليسرى“

یعنی استنجا میں پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوئے پھر مقامِ استنجا کو بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کے پیٹ سے دھوئے اگر اس سے صفائی ہوجائے اور اگر زیادہ کی حاجت ہو، تو دو انگلیوں سے اور زیادہ انگلیوں کی حاجت ہو، تو تین سے۔ (مجمع الانھر، جلد 1، صفحہ 99، مطبوعہ: بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: Web-2116

تاریخ اجراء: 01 رجب المرجب 1446 ھ / 02 جنوری 2025 ء