
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کپڑے کے بارے میں یہ وہم ہو کہ اس پر چھپکلی چڑھی ہوگی، تو کیا اس صورت میں اُس کپڑے کو ویسے ہی استعمال کرسکتے ہیں یا پھر دھوکر استعمال کرنا ضروری ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حکمِ شرع یہ ہے کہ چھپکلی اگر کپڑوں پر چڑھ جائے، تو محض اس کے چڑھنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔ ہاں! اگر چھپکلی کے جسم پر کوئی نجاست لگی ہو یا اُس کی بیٹ کپڑوں پر لگ جائے تو اس صورت میں فقط کپڑے کے اُسی ناپاک حصے کو پاک کرنا ہوگا۔
شریعتِ مطہرہ کا حُسن یہ ہے کہ اس میں کافی آسانی رکھی گئی ہے۔ شریعتِ مطہرہ کا بنیادی قاعدہ ہے کہ اشیاء میں اصل طہارت ہے، محض شک و شبہ سےکسی بھی چیز پر ناپاکی کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں محض وہم کی بنا پر وہ کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔
محض شک و شبہ کی بنا پر ناپاکی کا حکم نہیں لگتا، جیسا کہ فتاوٰی شامی میں ہے:
”فی التاترخانیۃ: من شک فی انائہ او ثوبہ او بدنہ اصابتہ نجاسۃ او لا، فھو طاھر ما لم یستیقن“
یعنی "فتاوٰی تاتارخانیہ" میں ہے کہ جسےاپنے برتن یا کپڑے یا بدن پر نجاست پہنچنے یا نہ پہنچنے کا شک ہو، تو وہ پاک ہی شمار ہوں گے جب تک کہ اُسے نجاست پہنچنے کا یقین نہ ہوجائے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 310، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”شبہ سے کوئی چیز ناپاک نہیں ہوتی کہ اصل طہارت ہے، والیقین لا یزول بالشک(یقین، شک سے دور نہیں ہوتا)۔ “ (فتاوٰی رضویہ، ج 04، ص 396، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوٰی امجدیہ میں ہے: ”جب تک ناپاک ہونے کا یقین نہ ہو محض احتمالِ نجاست ہونا، کافی نہیں، محض شبہہ کی وجہ سے نجاست کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ “ (فتاوٰی امجدیہ، ج01، ص 26، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13784
تاریخ اجراء: 25شوال المکرم 1446 ھ/24اپریل 2025 ء