
فتوی نمبر:WAT-3533
تاریخ اجراء: 02شعبان المعظم 1446ھ/01فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کتا یا بلی کپڑے کو چھو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کتے اور بلی کا حکم اس اعتبار سے تو یکساں ہے کہ اگر ان کا جسم خشک ہو ، اس پر کسی طرح کی کوئی نجاست نہ لگی ہو تو اس حالت میں اگر یہ کسی شخص کے بدن یا کپڑوں کو چھو جائیں تو اس کے کپڑے وبدن ناپاک نہیں ہوں گے ، لیکن ان کے جھوٹے اور تھوک وپسینے کے اعتبار سے حکم مختلف ہو گا کہ کتے کا جھوٹا،پسینہ اور تھوک ناپاک ہے، یہ اگر کسی کے بدن یا کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے کا اتنا حصہ ناپاک ہو جائے گااور اگر وہ درہم سے زائد مقدار پر لگا ہوتو دھو کرنماز پڑھنا فرض اور درہم کی مقدا ر ہوتو دھو کر نماز پڑھنا واجب اور کم ہوتو دھونا سنت ۔
اور بلی کا جھوٹا ،پسینہ اور تھوک مکروہ ہےجبکہ اس کے منہ پر کوئی اورنجاست نہ لگی ہو،پس یہ اگر کسی کے بدن یا کپڑوں کو لگ جائے تو چاہئے کہ اتنے حصے کو دھو کر نماز پڑھے،بغیر دھوئے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے،اگراسی طرح بغیر دھوئے پڑھ لی تونماز ہوجائے گی ،البتہ خلاف اولی ہوگی۔
چنانچہ فتاوٰی ہندیہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے”الكلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبه لا يتنجس ما لم يظهر فيه أثر البلل راضيا كان أو غضبان، كذا في منية المصلي۔ قال في الصيرفية هو المختار، كذا في شرحها لإبراهيم الحلبي۔ إذا نام الكلب على حصير المسجد إن كان يابسا لا يتنجس وإن كان رطبا ولم يظهر أثر النجاسة فكذلك، كذا في فتاوى قاضي خان“یعنی کتا اگر انسان کے کسی عضو یا کپڑے کو پکڑلےتو بدن یا کپڑے کا وہ حصہ ناپاک نہیں ہوگا جب تک کہ اس میں تری ظاہر نہ ہوجائے، خواہ کتا رضا کی حالت میں ہو یا غضبناک حالت میں ہو، جیسا کہ "منیۃ المصلی" میں مذکور ہے۔ "صیرفیہ" میں فرمایا : یہی مختار ہے جیسا کہ ابراہیم حلبی کی شرح منیہ میں ہے ۔ اگر کتا مسجد کی چٹائی پر سوجائےاور کتے کا جسم خشک ہو تو چٹائی نجس نہیں ہوگی، اور اگر کتے کا جسم تر ہو مگرچٹائی میں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو تو بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ فتاوٰی قاضی خان میں مذکور ہے۔(فتاوی ھندیۃ، کتاب الطھارۃ، ج01، ص 48، دار الفکر،بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:”ويكره أن تلحس الهرة في كف إنسان ثم يصلي قبل غسلها“ترجمہ:یہ مکروہ ہے کہ بلی کسی انسان کی ہتھیلی کو چاٹے اور پھر وہ اسے دھوئے بغیر نماز پڑھ لے۔(فتاوی ھندیۃ، ج01،ص24 ،دار الفکر،بیروت)
در مختار میں ہے” (وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل فيفرض“ترجمہ:شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے (نجاستِ غلیظہ)درہم کی مقدار معاف قرار دی ،اگرچہ اس کے ساتھ نماز مکروہ تحریمی ہوگی، پس اسے دھونا واجب ہے،اور درہم سے کم میں نماز مکروہ تنزیہی ہوگی ،پس اسے دھونا سنت ہے اور درہم سے زائد نماز کو باطل کردے گی پس اسے دھونا فرض ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج 1،ص 316،317،دار الفکر،بیروت)
بہارشریعت میں ہے"اگر کسی کا ہاتھ بلّی نے چاٹنا شروع کیا تو چاہیے کہ فوراً کھینچ لے یوہیں چھوڑ دینا کہ چاٹتی رہے مکروہ ہے اور چاہیے کہ ہاتھ دھو ڈالے بے دھوئے اگر نماز پڑھ لی تو ہو گئی مگر خلافِ اَولیٰ ہوئی۔“(بہار شریعت، ج01، حصہ 2،ص 343 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ایک اور مقام پر بہار شریعت میں ہے” جس کا جھوٹا ناپاک ہے اس کا پسینہ اور لعاب بھی ناپاک ہے اور جس کا جھوٹا پاک اس کا پسینہ اور لعاب بھی پاک اور جس کا جھوٹا مکروہ اس کا لعاب اور پسینہ بھی مکروہ۔۔۔ سُوئر، کتا، شیر، چیتا، بھیڑیا، ہاتھی، گیدڑ اور دوسرے درندوں کا جھوٹا ناپاک ہے۔۔۔ گھر میں رہنے والے جانور جیسے بلّی، چوہا، سانپ، چھپکلی کا جھوٹا مکروہ ہے۔"(بہارشریعت،ج01، حصہ02،ص 342،343،344،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم