ناپاک کپڑوں کو صابن یا سرف سے دھونا ضروری ہے؟

ناپاک کپڑوں کو صابن، سرف سے دھونا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر حیض کا خون، پیشاب یامنی وغیرہ کپڑوں پر لگ جائے تو کیا کپڑوں کو پانی سے پاک کر لینا کافی ہوگا؟ یا سرف و صابن لگانا ضروری ہے؟ نیز پانی سے پاک کرنے کے بعد کیا ہم ان میں عبادت کر سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر اس کپڑے کو اچھے طریقے سے دھو کر نجاست اور اس کا اثر (رنگ و بو) زائل کردیا تو وہ کپڑا پاک ہوگیا، اور اگر اس کپڑے میں نجاست کا اثر (رنگ یا بو) ایسا ہے کہ جس کو دور کرنا دشوار ہو تو اسے دور کرنے کی ضرورت نہیں، جب شرعی طریقہ کار کے مطابق کپڑا دھولیا، وہ پاک ہو گیا، اور اب صابن وسرف سے دھونے کی بھی حاجت نہیں، اور جب کپڑا پاک ہوجائے تو اسے پہن کر عبادت کی جاسکتی ہے۔

فتاوی رضویہ میں ہے

و مسألۃ النجاسۃ انما امرنا فیھا بالتطھیر بالماء۔۔۔ و ما یشق زوالہ عفو و العفو لایتکلف فی ازالتہ

ترجمہ: اور مسئلہ نجاست میں ہمیں صرف یہ حکم دیاگیا ہے کہ پانی سے پاک کردیں، اور جس اثر کا دُور ہونا دشوار ہو وہ معاف ہے اور جو معاف ہو، اسے دُور کرنے کا تکلف نہیں کیاجاتا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 3، صفحہ 474، رضا فاونڈیشن، لاہور)

فتاوی عالمگیری میں ہے

و إن كانت شيئا لا يزول أثره إلا بمشقة بأن يحتاج في إزالته إلى شيء آخر سوى الماء كالصابون لا يكلف بإزالته

ترجمہ: اگر وہ ایسی نجاست تھی کہ جس کا اثر زائل نہیں ہوتا مگر مشقت سے بایں طور کہ اس کو دور کرنے میں پانی کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً صابون کی ضرورت ہو تو وہ اس کو دور کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 42، دار الفکر، بیروت)

بہار شریعت میں ہے ”اگر نَجاست دور ہو گئی مگر اس کا کچھ اثر رنگ یا بُو باقی ہے تو اسے بھی زائل کرنا لازم ہے، ہاں اگر اس کا اثر بدقّت جائے تو اثر دور کرنے کی ضرورت نہیں تین مرتبہ دھولیا پاک ہو گیا، صابون یا کھٹائی یا گرم پانی سے دھونے کی حاجت نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 397، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4122

تاریخ اجراء: 20 صفر المظفر 1447ھ / 15 اگست 2025ء