
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا وضو اور غسل میں انگلیوں کا خلال کرنا واجب ہے؟ اگر نہیں تو کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
وضو اور غسل میں خلال کرنا فی نفسہ فرض یا واجب نہیں بلکہ سنت ہے، لیکن اگر خلال کیے بغیر انگلیوں کے درمیان والی جگہوں میں پانی نہ پہنچتا ہو تو خلال کر کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان والی جگہ تک پانی پہنچانا فرض و ضروری ہے، کیوں کہ وضو میں دونوں ہاتھ کہنیوں تک اور دونوں پاؤوں ٹخنوں تک دھونا اور غسل میں پورے جسم کے ظاہری حصہ پر پانی بہانا فرض ہے، اور اس میں انگلیوں کے درمیان والی جگہ بھی داخل ہے۔ لہذا اگر انگلیوں کے درمیان والی جگہوں میں پانی پہنچ گیا تھا پھر خلال نہیں کیا تووضو اور غسل ہوجائے گا، البتہ! سنت کا ترک ہوگا، لیکن اگر انگلیوں کے درمیان والی جگہوں میں پانی نہ پہنچا اور نہ اس نے خلال وغیرہ کے ذریعے پانی پہنچایا تو وضو اورغسل ہی مکمل نہیں ہوں گے۔
غنیۃ المتملی میں ہے
و تخلیل الاصابع سنۃ ایضاً فی الیدین و الرجلین
ترجمہ: ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا بھی سنت ہے۔ (غنیۃ المتملی، صفحہ 25، مطبوعہ: در سعادت)
در مختار میں وضو کی سنتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
تخلیل الاصابع الیدین بالتشبیک و الرجلین بخنصرہ یدہ الیسری بادئا بخنصر رجلہ الیمنی و ھذا بعد دخول الماء خلالھا فلو منضمۃ فرض
ترجمہ: ہاتھوں کی انگلیوں کا خلال تشبیک کے ساتھ اور پاؤں کی انگلیوں کا بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کے ساتھ ہے، سیدھے پاؤں کی چھنگلیا سےابتداکرتے ہوئے، سنت ہے اور یہ سنت ہے انگلیوں کے درمیان پانی داخل ہونے کے بعد ہے، پس اگر انگلیاں ملی ہوئی ہوں تو فرض ہے۔ (الدر المختار، جلد 1، صفحہ 256 ، 257، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے ”ہاتھ پاؤں کی اُنگلیوں کا خِلال کرے، پاؤں کی اُنگلیوں کا خِلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے کرے اس طرح کہ داہنے پاؤں میں چھنگلیا سے شروع کرے اور انگوٹھے پر ختم کرے اور بائیں پاؤں میں انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیا پر ختم کرے اور اگر بے خِلال کیے پانی اُنگلیوں کے اندر سے نہ بہتا ہو تو خلال فرض ہے یعنی پانی پہنچانا اگرچہ بے خِلال ہو مثلاً گھائیاں کھول کر اوپر سے پانی ڈال دیا یا پاؤں حوض میں ڈال دیا۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 295، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
در مختار میں ہے
و سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب و آدابہ کآدابہ سوی استقبال القبلۃ
یعنی: غسل کی سنتیں سوائے ترتیب کے اور آداب سوائے استقبال قبلہ کے وہی ہیں جو وضو کی سنتیں اور آداب ہیں۔ "کسنن الوضوء" کے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں:”التخلیل“یعنی: جیسے وضو میں خلال مستحب ہے، ویسے غسل میں بھی مستحب ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 1، صفحہ 319، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے ”پانی ایسی بے احتیاطی سے بہاتے ہیں کہ بعض مواضع بالکل خشک رہ جاتے ہیں یا اُن تک کچھ اثر پہنچتا ہے تو وہی بھیگے ہاتھ کی تری۔ اُن کے خیال میں شاید پانی میں ایسی کرامت ہے کہ ہر کنج وگوشہ میں آپ دوڑ جائے کچھ احتیاط خاص کی حاجت نہیں، حالانکہ جسم ظاہر میں بہت موقع ایسے ہیں کہ وہاں ایک جسم کی سطح دوسرے جسم سے چھپ گئی ہے یا پانی کی گزرگاہ سے جدا واقع ہے کہ بے لحاظ خاص پانی اس پر بہنا ہرگز مظنون نہیں اور حکم یہ ہے کہ اگر ذرّہ بھر جگہ یا کسی بال کی نوک بھی پانی بہنے سے رہ گئی تو غسل نہ ہوگا اور نہ صرف غسل بلکہ وضو میں بھی ایسی ہی بے احتیاطیاں کرتے ہیں کہیں ایڑیوں پر پانی نہیں بہتا، کہیں کہنیوں پر کہیں ماتھے کے بالائی حصے پر،کہیں کانوں کے پاس کنپٹیوں پر۔ ہم نے اس بارہ میں ایک مستقل تحریر لکھی ہے اُس میں ان تمام مواضع کی تفصیل ہے جن کا لحاظ و خیال وضو وغسل میں ضرور ہے مردوں اور عورتوں کی تفریق اور طریقہ احتیاط کی تحقیق کے ساتھ ایسی سلیس وروشن بیان سے مذکور ہے جسے بعونہٖ تعالٰی ہر جاہل بچہ، عورت سمجھ سکے،یہاں اجمالاً ان کا شمار کئے دیتے ہیں۔۔۔ (10) ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں۔۔۔ (18) پاؤوں کی آٹھوں گھائیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 597 تا 599، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4073
تاریخ اجراء: 05 صفر المظفر 1447ھ/ 31 جولائی 2025ء