
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ وضو سے فارغ ہوکر اپنے اعضا کو پونچھ لیتے ہیں، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟ اور کیا اس طرح ہاتھ منہ پونچھنے سے وضو کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے؟ پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ وضو کے بعد اعضا کو پونچھ کر ثواب ضائع نہ کرو! کیونکہ ان قطروں کو میزان عمل میں تولا جائے گا! اس کے بعد نیچے میزان عمل میں قطرے تولے جانے کے متعلق حدیث شریف لکھی تھی۔ برائے کرم اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
وضو کے بعد اعضا کو پونچھنا بلا کراہت جائز ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے، ہاں بہتر و مستحب عمل یہ ہے کہ وضو کےبعد اعضا کو بلا ضرورت نہ پونچھے نہ ہی اس کی عادت ڈالے اور اگر پونچھے تو بالکل خشک نہ کرے بلکہ تھوڑی بہت تری باقی رہنے دے، نیز اعضا کو پونچھنے میں بہتر یہ ہے کہ الگ سے کوئی رومال وغیرہ اس کیلئے استعمال کرے، اپنے پہنے ہوئے کپڑے کے دامن وغیرہ سے نہ پونچھے۔
رہی یہ بات کہ اعضا کو پونچھنے کی صورت میں ثواب ضائع ہوگا یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفسِ وضو کا ثواب جو وضو کرنے پر حاصل ہوتا ہے، وہ تو اعضا کو پونچھنے سے مطلقاً کم یا ضائع نہیں ہوگا، جبکہ وضو کے بعد اعضاء پر نمی باقی رہنے کا جو ثواب ہے، اس کے حاصل ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ اعضا کو بالکل خشک نہ کیا جائے بلکہ کچھ تری باقی رہنے دی جائے، لہٰذا اگر کسی نے اعضاء بالکل خشک کر لئے تو چونکہ نمی باقی رکھنے والے مستحب پر عمل نہ ہوا، اس لئے اس مستحب کا ثواب نہیں ملے گا۔
جامع ترمذی شریف میں ہے:
عن عائشة قالت: كان لرسول الله صلي الله عليه و سلم خرقة ينشف بها بعد الوضوء
ترجمہ: ر سول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس سے آپ وضو کے بعد اعضاپونچھا کرتے تھے۔ (سنن الترمذی، ج 01، ص 74، مطبوعہ مصر)
محرر مذہبِ حنفی امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمۃ کتاب الآثار شریف میں فرماتے ہیں:
و أخبرنا أبو حنيفة عن حماد عن إبراهيم رحمهم الله في الرجل يتوضأ و يمسح وجهه بالثوب، قال: لا بأس بہ ثم قال: أرأیت لو اغتسل فی لیلۃ باردۃ أیقوم حتی یجف؟ قال محمد: و بہ نأخذ و لا نری بذالک بأسا و ھو قول أبی حنیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ترجمہ: اور ہمیں خبردی امام ابو حنیفہ نے امام حماد سے روایت کرتے ہوئے کہ امام ابراہیم نخعی علیہ الرحمۃ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو وضو کے بعد اپنے چہرے کو کپڑے سے پونچھتا ہے تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں پھر انہوں نے فرمایا کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہو گے جو ٹھنڈی رات میں غسل کرتا ہے تو کیا وہ جسم خشک ہونے تک ایسے ہی کھڑا رہے؟ امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ (کتاب الآثار للامام محمد، ص 08، مطبوعہ کراچی)
رد المحتار میں فتاوٰی خانیہ سے اور بحر الرائق میں معراج الدرایۃ سے منقول ہے،
و اللفظ للبحر: ”لا بأس بالتمسح بالمنديل للمتوضئ و المغتسل إلا أنه ينبغي أن لا يبالغ و يستقصي فيبقى أثر الوضوء على أعضائه“
ترجمہ: و ضو کرنے والے اور غسل کرنے والے کے لیے اعضاء کو پونچھنے میں حرج نہیں ہے البتہ مناسب یہی ہے کہ اتنا مبالغہ نہ کرے کہ اعضاء وضو پر تری باقی نہ رہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، ج 01، ص 289، بیروت) (البحر الرائق، ج 01، ص 54، دار الكتاب الإسلامي)
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا ہے، جس کا نام "تنویر القندیل فی اوصاف المندیل" ہے، آپ علیہ الرحمۃ اس میں لکھتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ ثواب عطا فرمائے، وضو کا ثواب جاتا رہنا محض غلط ہے۔ ہاں بہتر ہے کہ بے ضرورت نہ پونچھے، امراء و متکبرین کی طرح اُس کی عادت نہ ڈالے اور پونچھے تو بے ضرورت بالکل خشک نہ کر لے قدرے نم باقی رہنے دے کہ حدیث میں آیا ہے:
ان الوضو ء یوزن۔ رواہ الترمذی عن ابن شھاب الزھری من اواسط التابعین و علقہ عن سعید بن المسیب من اکابرھم و افضلھم
(یعنی: بے شک وضوکا پانی روزِ قیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائے گا۔ اسے ترمذی نے درمیانی طبقہ کے تابعی حضرت ابنِ شہاب زہری سے روایت کیا اور بزرگ طبقہ اور افضل درجہ کے تابعی حضرت سعید بن مسیّب سے تعلیقاً بیان کیا)۔۔۔
قدروی تمام فی فوائدہ وابن عساکر فی تاریخہ عن ابی ھریرۃ رضی الله تعالٰی عنہ عن النبی صلی الله علیہ و سلم من توضأ فمسح بثوب نظیف فلا باس بہ و من لم یفعل فھو افضل لان الوضوء یوزن یوم القیامۃ مع سائر الاعمال۔ اقول : وبہ انتفٰی الاستدلال بو زنہ علی کراھۃ مسحہ کما قال الترمذی فی جامعہ و من کرھہ انما کرھہ من قبل انہ قیل ان الوضوء یوزن الخ فھٰذا الحدیث مع تصریحہ بالوزن نص علی نفی الکراھۃ فان ذلك انما ھواستحباب ومعلوم ان ترك المستحب لایوجب کراھۃ التنزیہ“
(یعنی: تمام نے فوائد میں اور ابنِ عساکر نے تاریخ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو وضو کر کے پاکیزہ کپڑے سے بدن پونچھ لے تو کچھ حرج نہیں اور جو ایسا نہ کرے تو یہ بہتر ہے اس لئے کہ قیامت کے دن آبِ وضو بھی سب اعمال کے ساتھ تولا جائے گا۔ میں کہتا ہوں: آب وضو کے وزن کئے جانے سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اسے پونچھنا مکروہ ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں لکھا کہ اس کو جس نے مکروہ کہا ہے اسی وجہ سے مکروہ کہا ہے کہ فرمایا گیا ہے: یہ پانی روزِ قیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائے گا۔ مذکورہ بالا حدیثِ ابو ہریرہ سے یہ استدلال رَد ہو جاتا ہے کیوں کہ اس میں وزن کئے جانے کی صراحت کے ساتھ کراہت کی نفی ہے کیونکہ یہ صرف مستحب ہے اور یہ معلوم ہے کہ ترك مستحب، کراہتِ تنزیہی کا مُوجب نہیں۔)“ (فتاوٰی رضویہ، ج 01، ص 314 ، 315، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید فرماتے ہیں: ”بالجملہ تحقیقِ مسئلہ و ہی ہے کہ کراہت اصلاً نہیں، ہاں حاجت نہ ہو تو عادت نہ ڈالے اور پُونچھے بھی تو حتی الوسع نم باقی رکھنا افضل ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 01، ص 328، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
رسالہ کےآخر میں فرماتے ہیں: ”علماء میں مشہور ہے کہ اپنے دامن آنچل سے بدن نہ پونچھنا چاہئے اور اسے بعض سلف سے نقل کرتے ہیں اور رد المحتار میں فرمایا کہ دامن سے ہاتھ منہ پونچھنا بھول پیدا کرتا ہے۔۔ اقول:یہ اہل تجربہ کی ارشادی باتیں ہیں،کوئی شرعی ممانعت نہیں ،جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ کی حدیثیں گزریں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے گوشہ جامہ مبارک سے چہرہ اقدس کا پانی صاف فرمایا۔۔ ہاں! ان کا ضعف اور علما میں اس کی شہرت اس کی مقتضی کہ اس سے احتراز اولیٰ ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 01، ص 331 تا 333، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0585
تاریخ اجراء: 02 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 30 مئی 2025ء