
مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3463
تاریخ اجراء: 13رجب المرجب 1446ھ/14جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ بیٹیوں کو وراثت میں سے ہر ہر چیز سے حصہ ملے گا یا صرف زمین میں سے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
وراثت میں جو بھی مال میت نے چھوڑا ،چاہے وہ زمین و جائیداد ہو یا رقم یا سونا، چاندی ،الغرض کسی بھی قسم کا مال ہو،جوضروری معاملات ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے کرنے ہوتے ہیں (کفن،دفن،دین،وصیت)ان کی ادائیگی کے جوکچھ مال باقی بچے ،وہ سب کا سب ورثہ میں تقسیم ہوگا ، اوربیٹیاں بھی ورثہ میں شامل ہیں ،لہذاان کوبھی دوسرے وارثوں کی طرح اس مال کی ہرہرچیزمیں سے حصہ ملےگا۔
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے”(من ترکۃ المیت) الترکۃ فی اللغۃ بمعنی المتروک کالطلبۃ بمعنی المطلوب وفی الاصطلاح ھو ما ترکہ المیت من الاموال“ ترجمہ:ترکہ لغت میں متروک یعنی چھوڑے ہوئے کے معنٰی میں ہے جیسے طلبہ مطلوب کے معنٰی میں ، اور اصطلاح میں میت اموال میں سے جو بھی مال چھوڑے اسے ترکہ کہتے ہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار،ج4،ص365،طبع کوئٹہ)
درمختار میں ہے”(یقسم الباقی ) بعد ذلک (بین ورثتہ) ۔۔(ویستحق الارث ) ولو لمصحف بہ یفتی“ ترجمہ: اس کے بعد جو مال میت کا بچ جائے وہ سب اس کے ورثہ میں تقسیم ہوگا۔۔۔وراثت کا استحقاق (ہر چھوڑی ہوئی چیز میں )ہو گا اگر چہ مصحف ہی ہو،اسی پر فتوی ہے۔(در مختار مع رد المحتار،ج6،ص762،دار الفکر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟