
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
فتوی نمبر: Nor-13622
تاریخ اجراء: 26جمادی الاولی 1446 ھ/29نومبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، طلاق کے دس دن بعد ہی زید کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید اپنی مطلقہ بیوی کی وراثت میں حقدار ہوگا؟ زید نے حق مہر کی رقم ابھی ادا کرنی ہے، تو کیا اُس رقم میں زید کا بھی حصہ ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
میاں بیوی کے مابین وراثت جاری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انتقال کے وقت حقیقتاً یا حکماً نکاح باقی رہے، جبکہ طلاقِ بائن یا مغلظہ طلاق ہونے کی صورت میں شوہر کے حق میں اصلاً ہی نکاح باطل ہوجاتا ہے، لہٰذا طلاقِ بائن یا طلاقِ مغلظہ کی عدت میں بیوی کا انتقال ہو جائے تو شوہر بیوی کا وراث نہیں بنے گا، اور شوہر نے حق مہر ابھی ادا نہیں کیا تھا ، تو پورا حق مہر ادا کرنا اُس کے ذمے پر لازم ہوگا۔
واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں زید اپنی مطلقہ بیوی کا وراث نہیں بنے گا اور نہ ہی حق مہر کی رقم میں زید کا کوئی حصہ ہوگا، کیونکہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں ۔ اب وہ رقم بیوی کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی، کیونکہ جس عورت نے حق مہر معاف نہ کیا ہو اور اُس کا انتقال ہوجائے، تو اس صورت میں وہ حق مہر عورت کے ترکے میں تقسیم ہوتا ہے۔
وراثت کے لیے رشتہ زوجیت کا پایا جانا ضروری ہے، جبکہ طلاقِ بائن رشتہ زوجیت کو ختم کردیتی ہے۔ جیسا کہ خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی ( المتوفی:1252ہجری) فتاویٰ شامی میں نقل فرماتے ہیں:” الميراث لا بد أن يكون لنسب أو سبب وهو الزوجية والعتق والزوجية تنقطع بالبينونة“یعنی میراث کا حقدار بننے کے لیے ضروری ہے کہ نسب یا پھر کوئی سبب پایا جائے اور سبب سے مراد زوجیت اور آزاد کرنا ہے، جبکہ زوجیت کا رشتہ طلاقِ بائن سے ختم ہوجاتا ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الطلاق،ج05،ص05،مطبوعہ کوئٹہ)
طلاقِ بائن کی صورت میں شوہر کے حق میں نکاح اصلاً باطل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ محقق علی الاطلاق علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ ( المتوفی:861ہجری )فتح القدیر میں نقل فرماتے ہیں:”فتبطل الزوجية بالطلاق البائن في حق الرجل حقيقة وحكما فلا يرثها إذا ماتت، بخلاف ما إذا أبانها في مرض موته ثم مات حيث ترثه لأن الزوجية وإن بطلت بالبائن حقيقة لكنها جعلت باقية في حقها دفعا للضرر عنها لأنه قصد إبطال حقها“یعنی طلاقِ بائن کی صورت میں مرد کے حق میں زوجیت حقیقتاً اور حکماً ہر طرح سے باطل ہوجاتی ہے لہذا عورت کے انتقال کی صورت میں مرد اُس کا وارث نہیں بنے گا، برخلاف اس صورت کے کہ جب مرد حالتِ مرض میں عورت کو طلاقِ بائن دے پھراُس کا انتقال ہو جائے تو عورت اُس کی وارث بنے گی، کیونکہ زوجیت اگرچہ طلاقِ بائن کے ذریعے حقیقتاً باطل ہوچکی ہے لیکن عورت کے حق میں اُس عورت سے ضرر کو دور کرنے کے لیے زوجیت کو حکماً باقی رکھا گیا ہے کہ اُس مرد نے اُس عورت کے حق کو باطل کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ( فتح القدیر علی الھدایہ ، کتاب الطلاق ، ج 04 ، ص 147 ، دار الفکر ، بیروت )
مرد نے حالتِ صحت میں طلاقِ بائن یا طلاقِ مغلظہ دی، تو اس صورت میں میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:”جملة الكلام فيه أن المعتدة لا تخلو إما إن كانت من طلاق رجعي وإما إن كانت من طلاق بائن أو ثلاث والحال لا يخلو إما إن كانت حال الصحة وإما إن كانت حال المرض ۔۔۔۔۔ وإن كانت من طلاق بائن أو ثلاث فإن كان ذلك في حال الصحة فمات أحدهما لم يرثه صاحبه سواء كان الطلاق برضاها أو بغير رضاها، وإن كان في حال المرض فإن كان برضاها لا ترث بالإجماع، وإن كان بغير رضاها فإنها ترث من زوجها عندنا “یعنی خلاصہ کلام یہ ہے کہ معتدہ یا تو طلاقِ رجعی کی عدت میں ہوگی یا پھر طلاق بائن یا طلاقِ ثلاثہ کی عدت میں ہوگی، اور جس حالت میں طلاق دی گئی وہ بھی دو حال سے خالی نہیں یا تو مرد نے حالتِ صحت میں طلاق دی ہوگی یا پھر حالتِ مرض میں طلاق دی ہوگی۔ ۔۔۔۔اور اگر طلاق بائن یا طلاق ثلاثہ کی عدت میں ہے، اور یہ طلاق بھی مرد نے حالتِ صحت میں دی ہے تو اس صورت میں زوجین میں سے کسی ایک کے انتقال سے دوسرا اُس کا وارث نہیں بنے گا خواہ طلاق عورت کی رضا مندی سے ہوئی ہو یا بغیر رضا مندی کے۔ ہاں اگر مرد نے حالتِ مرض میں طلاق دی ہو تو اب اگر یہ طلاق عورت کی رضا مندی سے ہوئی ہو، تو وہ بالاجماع وارث نہیں بنے گی، اگر طلاق عورت کی رضامندی کے بغیر ہوئی ہو، تو ہمارے نزدیک عورت اپنے شوہر کی وارث بنے گی۔ (بدائع الصنائع ، کتاب الطلاق،ج03،ص218، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ملتقطاً )
بہارِ شریعت میں ہے:”مریض نے عورت کو طلاق بائن دی تھی اور عورت ہی اَثنائے عدّ ت میں مر گئی تو یہ شوہر اُس کا وارث نہ ہو گا اور اگر رجعی طلاق تھی تو وارث ہو گا۔“ (بھارِ شریعت، ج 02، ص 164، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
عورت نے مہر معاف نہ کیا ہو تو وہ مہر ترکے میں تقسیم ہوگا۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:” مہرجبکہ کُل یابعض ذمہ شوہر واجب الادا ہو اورعورت بے ابراومعافی معتبرشرعی مرجائے تووہ مثل دیگر دیون واموال ، متروکہ زن ہوتا ہے۔“(فتاوٰی رضویہ،ج 26، ص 167، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاویٰ فقیہ ملت میں سوال ہوا کہ:”بیوی کے انتقال کے بعد مہر کی رقم کس طرح ادا کی جائے؟ “ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر شوہر نے مہر ادا نہیں کیا اور عورت بغیر معاف کیے مر گئی تو اب یہ اس کا ترکہ ہے جو اس کے وارثین کا حق ہے۔“(فتاوٰی فقیہ ملت، ج 01، ص 422، شبیر برادرز، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟