
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:MUI-007
تاریخ اجراء:26شعبان المعظم1444ھ/06 مئی 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا دودھ کے رشتے کی ماں کو بھی وراثت میں حصہ دینا ہوگا؟ جبکہ اصل ماں باپ موجود نہیں ہیں۔اگر میت نے اس کے لئے وصیت کی ہوئی ہے کہ ان کو میری ماں کے برابر ہی حصہ دینا ہے تو کیا کیا جائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
وراثت میں نسبی رشتے داروں کا حق ہوتا ہے رضاعت سے حقِ وراثت ثابت نہیں ہوتا؛ لہذا پوچھی گئی صورت میں اگرچہ میت کے اصل ماں باپ موجود نہیں ہیں پھر بھی رضاعی ماں کو وارث ہونے کی وجہ سے وراثت میں حصہ نہیں دیا جا سکتا،البتہ چونکہ میت نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کی رضاعی ماں کو حقیقی ماں(اگر ہوتی تواس کا جتنا حصہ ہوتاہے، اس) کے برابر حصہ دیا جائے، اس لیے اس کی رضاعی ماں کو قوانینِ وصیت کے مطابق ترکہ میں سے حصہ ملے گا جس کی دو صورتیں بنتی ہیں۔
(۱): اگر میت کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، یا دو بھائی یا بہن ہوں تو اس کی رضاعی ماں کو(چھٹا حصہ) ملے گا۔
(۲): اگر میت کے مذکورہ بالا رشتہ دار نہ ہوں اور چونکہ میت کا باپ بھی موجود نہیں اس لیے باقی صورتوں میں اس کی رضاعی ماں کو کل مال کا تہائی حصہ دیا جائے گا؛ کیونکہ وراثت میں حقیقی ماں کے یہی حصے ہوتے ہیں۔
تنبیہ: ایک بات یاد رکھیں کہ یہاں رضاعی ماں کو ترکہ سے حصہ ملنے کے لیے دیگر ورثا کا میت کی وصیت کو قبول کرنا ضروری نہیں؛ کیونکہ وصیت بہر صورت تہائی مال میں نافذ ہو جاتی ہے خواہ ورثا اجازت دیں یا نہ دیں اور ماں کا حصہ بھی کسی صورت میں تہائی مال سے زیادہ نہیں ہوتا جس سے ثابت ہوا کہ میت کی وصیت تہائی یا اس سے کم ہی مال میں ہوئی ہے لہذا ورثا کی اجازت ضروری نہیں۔
حقِ وراثت ثابت ہونے کے تین اسباب ہیں جیساکہ ملتقی الابحر میں ہے: ويستحق الإرث بنسب و نکاح وولاء‘‘ ترجمہ: نسب، نکاح اور عتق کی وجہ سے وراثت کا حق ثابت ہوتا ہے۔(ملتقی الابحر، جلد1، صفحہ495، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
رضاعت سببِ وراثت نہیں جیساکہ شیخ الاسلام شمس الائمہ علامہ ابو بکر سرخسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’وتجوز شهادة الرجل لوالده من الرضاعة ووالدته؛ لأن الرضاع تأثيره في الحرمة خاصة، وفيما وراء ذلك كل واحد منهما من صاحبه كالأجنبي (ألا ترى) أنه لا يتعلق به استحقاق الإرث‘‘ ترجمہ: کسی مرد کا اپنے رضاعی باپ یا ماں کے لیے گواہی دینا جائز ہے؛ کیونکہ رضاعت صرف حرمت میں مؤثر ہوتی ہےاور اس کے علاوہ تمام چیزوں میں رضاعی ماں باپ اجنبی کی طرح ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ رضاعت کی وجہ سے وراثت کا حق ثابت نہیں ہوتا۔(المبسوط للسرخسی، جلد16، صفحہ147، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وصیت ثلث مال سے زائد میں وارثوں کی اجازت کے بغیر جائز نہیں، کم میں جائز ہے جیساکہ بدایۃ المبتدی میں ہے: ’’الوصية غير واجبة وهي مستحبة ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزها الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته‘‘ ترجمہ: وصیت کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب کام ہے، اور ثلث مال سے زیادہ میں یہ جائز نہیں مگر یہ کہ اس کی وفات کے بعد ورثا اس کو جائز کردیں بشرطیکہ سارے ورثا بالغ ہوں، اور موصی کی زندگی میں دی گئی اجازت معتبر نہیں ہوگی۔(ھدایۃ المبتدی، صفحہ285، مطبوعہ قاھرہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’وارثوں کی اجازت کے بغیر اجنبی شخص کے لئے تہائی مال میں وصیّت صحیح ہے۔‘‘(بھار شریعت، جلد3، صفحہ938، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
اگر کسی وارث کا حصہ تہائی مال یا اس سے کم بنتا ہو تو اس کے حصے کے برابر وصیت کرنے میں وارثوں کی اجازت ضروری نہیں زیادہ ہو تو ضروری ہے، جیساکہ فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’وإن كان أكثر من الثلث يحتاج إلى إجازة الورثة فإن كان ثلثا أو أقل منه فإنه يجوز من غير إجازة، نحو ما إذا أوصى بمثل نصيب ابنه وله ابن واحد صار للموصى له نصف المال إن أجاز الابن وإن لم يجز الابن فللموصى له الثلث، وإن كان له ابنان فإنه يكون المال بينهم أثلاثا، ولا يحتاج إلى الإجازة‘‘ ترجمہ:اگر وصیت ثلث مال سے زیادہ میں ہو تو وارثوں کی اجازت ضروری ہے، اور اگر ثلث مال یا اس سے کم میں ہو تو ان کی اجازت کے بغیر بھی جائز ہے، مثلا کسی شخص نے اپنے بیٹے کے حصے کے برابر کسی کے لیے وصیت کی اور اس کا صرف ایک ہی بیٹا ہے تو اگر اس کا بیٹا اجازت دے تو موصیٰ لہ کے لیے نصف مال ہوگا اور اجازت نہ دے تو ثلث ہوگا اور اگر اس کے دو بیٹے ہوں تو پورا مال ان کے درمیان ثلث، ثلث تقسیم کر دیا جائے گا اور اس میں ان کی اجازت کی بھی حاجت نہیں ہوگی۔(فتاوی ھندیہ، جلد6، صفحہ116، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
مذکورہ بالا جزئیے میں چونکہ پہلی صورت(ایک بیٹا ہونے کی صورت میں) باپ نے کسی کے لیے وصیت کی تو گویاکہ دو بیٹے ہو گئے جن کا حصہ نصف نصف ہوا اس لیے وہاں اجازت کی ضرورت ہے جب کہ دوسری صورت میں دو بیٹے اور ایک موصی لہ ہے اب تینوں کو برابر برابر حصہ دیا جائے تو تینوں کو ثلث، ثلث ملے گا جس کے لیے ورثا کی اجازت ضروری نہیں ہوتی۔
وصیت کی وجہ سے وراثت کی ممکنہ صورتیں بنا کر وصیت نافذ کی جاتی ہے جیساکہ بہار شریعت میں ہے:’’ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے اپنے وارثوں میں ایک بیٹا اور باپ چھوڑے اور وصیّت کی کہ فلاں شخص کو میرے بیٹے کے حصہ کے مثل حصہ دیا جائے تو اگر وارثوں نے اس کی وصیت کو جائز رکھا تو اس کا مال گیارہ حصوں میں تقسیم ہوکر موصی لہ کو پانچ حصے، باپ کو ایک حصہ اور بیٹے کو پانچ حصے ملیں گے اور اگر وارثوں نے اس کی وصیّت کو جائز نہ رکھا تو موصی لہ کو اس کے مال کا تہائی حصہ ملے گا اور باقی باپ اور بیٹے کے درمیان حصہ رسدی تقسیم ہوگا باپ کو ایک حصہ، بیٹے کو پانچ، یعنی کل مال کے نو حصے کئے جائیں گے، تین حصے موصٰی لہ کو، ایک حصہ با پ کو اور پانچ حصے بیٹے کو دیئے جائیں گے۔‘‘(بھار شریعت، جلد 3، صفحہ 954، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
بہار شریعت کے مذکورہ بالا جزئیے میں وراثت نافذ کرنے کے لیے دو صورتیں فرض کی گئی ہیں: ایک ورثا کا وصیت کو جائز رکھنا، دوسرا جائز نہ رکھنا جس کی وجہ سے موصیٰ لہ کے حصے میں فرق آ رہا ہے اسی طرح صورت مسئولہ کی بھی دو صورتیں بنیں گی۔
وراثت میں ماں کے حصے کو بیان کرتے ہوئے الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:’’الأم ولها ثلاثة أحوال: السدس مع الولد وولد الابن واثنين من الإخوة والأخوات من أي جهة كانوا والثلث عند عدم هؤلاء۔۔۔ وثلث ما يبقى بعد فرض الزوج والزوجة، في مسئلتین: زوج وأبوان، أو زوجة وأبوان۔۔۔ ولو كان مكان الأب جدا فلھا الثلث کاملا‘‘ ترجمہ: ماں کی تین حالتیں ہیں: میت کے بیٹے، پوتے یا دو بھائی، بہن خواہ کسی بھی جہت سے ہوں کی موجودگی میں چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو تہائی، اوردو صورتوں میں شوہر یا بیوی کا حصہ دینے کے بد مابقیہ مال کا تہائی ملے گا: جب کہ میت کا شوہر اور اس کے والدین، یا میت کی بیوی اور اس کےوالدین زندہ ہوں تب ماں کو شوہر یا بیوی کو دینے کے بعد بچے ہوئے مال کا تہائی حصہ ملے گا،اور اگر میت کا باپ نہ ہو بلکہ دادا ہو تو ماں کو پورے مال کا تہائی حصہ ملے گا۔ملتقطا۔(الاختیار لتعلیل المختار، جلد5، صفحہ90، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟