
مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2024
تاریخ اجراء: 29 جمادی الاولٰی 1446 ھ/02 دسمبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اللہ پاک جسم سے پاک ہے، تو پھر اللہ پاک کا دیدار کیسے ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ عقل مخلوق و حادث ہے اور اللہ تعالی خالق و قدیم، تو عقلی خیالات و قیاسات سے اللہ تعالی کی ذات و صفات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
ہمارے علما نے واضح طور پر نقل فرمایا ہے کہ کسی کو دیکھنے کے لئے اس کا جہت یا رنگ والا ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن و حدیث اور عقل کی روشنی میں یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار سر کی آنکھوں سے ہو گا۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالی کا دیدار کیسے ہو گا؟ تو یہ بات ہماری ناقص عقل میں نہیں آ سکتی، ان شاء اللہ عزوجل جب رؤیت باری تعالی ہو گی، اس وقت معلوم ہو جائے گا۔
شرح عقائد نسفیہ میں امام سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فیری لا فی مکان و لا علی جھۃ۔۔۔ و قیاس الغائب علی الشاھد فاسد“
یعنی اللہ تعالی کو مکان اور جہت کے بغیر دیکھا جائے گااور شاہد پر غائب کو قیاس کرنا فاسد ہے۔ (شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 272، مکتبۃ البشری، کراچی)
منح الروض الازھر میں ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”(و اللہ یری في الآخرۃ)أي: یوم القیامۃ، (و یراہ المؤمنون و ھم في الجنۃ بأعین رؤوسہم) و ھو قول اکثر اھل السلف ( بلا تشبیہ) أي: رؤیۃ مقرونۃ بتنزیہ لا مکنونۃ بتشبیہ (و لا کیفیۃ) أي: في الصورۃ (و لا کمیۃ) أي: في الہیئۃ المنظورۃ (و لا یکون بینہ و بین خلقہ مسافۃ) أي: لا في غایۃ من القرب و لا في نہایۃ من البعد، و لا یوصف بالاتصال و لا بنعت الانفصال و لا بالحلول و الاتحاد کما یقولہ الوجودیۃ المائلون إلی الاتحاد، فذات رؤیتہ ثابت بالکتاب و السنۃ إلاّ أنّہا متشابہۃ من حیث الجہۃ والکمیۃ والکیفیۃ، فنثبت ما أثبتہ النقل و ننفي عنہ ما نزّھہ العقل“
یعنی اللہ تعالی کو آخرت یعنی قیامت کے دن دیکھا جا سکے گا اور مومنین جنت میں اپنے سر کی آنکھوں سے بلا تشبیہ اس ذات با برکت کو دیکھیں گے یعنی وہ رؤیت ایسی ہو گی جو تنزیہ کی صفت سے متصف ہو گی نہ کہ تشبیہ کی صفت سے۔ اور (وہ رؤیت) بلا کیفیتِ صورت اور بلا کمیتِ ہیئتِ منظورہ ہوگی اور نہ ہی اللہ تعالی اور مخلوق کے درمیان مسافت کا کوئی مسئلہ ہو گا یعنی نہ ہی قرب کی کوئی حد ہو گی، نہ ہی بعد کی، اور نہ ہی وہ رؤیت اتصال، انفصال اور حلول و اتحاد کی صفت سے متصف ہو گی جیسا کہ بعض وجودیہ کا موقف ہے جو کہ اتحاد کی طرف مائل ہیں۔ (خلاصہ کلام یہ کہ) اللہ تعالی کی رؤیت قرآن و سنت سے ثابت ہے لیکن جہت، کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مشتبہ ہے تو جتنی بات نقلاً ثابت ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور عقل جس چیز کی اللہ تعالی کی ذات سے نفی کرتی ہے اس چیز کو نہیں مانتے۔(منح الروض الازھر، صفحہ 149، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”ربِّ عزوجل فاعل مختار ہے اس کے ارادے کے سوا عالم میں کوئی شے مؤثر نہیں، رؤیت شے نہ اجتماع شرائط عادیہ سے واجب نہ ان کے انتفاء سے محال، وہ چاہے تو سب شرطیں جمع ہوں اور دن کو سامنے کا پہاڑ نظر نہ آئے اور چاہے تو بلا شرط رؤیت ہوجائے جیسے بحمدہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کا دیدار کہ کیفیت وجہت ولون ووقوع ضوومحاذات وقُرب و بعد و مسافت وغیرہا جملہ شرائطِ عادیہ سے پاک و منزہ ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 27، صفحہ 536- 537، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے: ”اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اس کا دیکھنا ان سب باتوں سے پاک ہو گا۔ پھر رہا یہ کہ کیونکر ہو گا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اس تک عقل رسا نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، صفحۃ 21- 22، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم